تحریر:سلمی راضی
غریب ہر طرف سے مصیبتوں سے گھیرا ہوا ہے۔ایک طرف تو غربت خود ایک سنگین مسئلہ ہے دوسری جانب وبائیں آفات سماوی یا پھر فصلوں کی بربادی سب کچھ غریب کے نصیب میں ہے۔ملک بھر کے دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر میں بھی یہ حالت یکساں ہوتی ہیں۔یہاں کابیشتر حصہ پہاڑی سلسلہ پر محیط ہے۔خطہ پیر پنچال یاکہ خطہ چناب وادی کشمیر ہو کہ کرگل اور لداخ، بہت کم میدانی اور اکثر پہاڑی آور دیہی علاقے حطہ پیر پنچال راجوری پونچھ میں فصلوں میں دو ہی فصل ہوتی ہیں۔جن میں مکی گیوں اور تین سے چار فیصد علاقوں میں دھان کی فصل بھی ہوتی ہیں۔ضلع پونچھ جس کی چار تحصیلیں حویلی، سرنکوٹ، مہنڈر اور منڈی ہیں۔جن میں سرنکوٹ کو چھوڑ کر تین تحصیلیں پہاڑی ہونے کے ساتھ سرہدی اور چاروں طرف سے جنگلوں سے گھیرے ہوئے ہیں۔جن کی وجہ سے جنگلی درندوں اور جانورو ں کی بھی بر مار ہوتی ہے۔یہاں تک کہ پرندے بھی اپنا حصہ لے اڑتے ہیں۔
تحصیل منڈی ضلع ہیڈ کواٹر سے 23 کلو میٹر کی دوری پر آباد ہے۔یہاں کے 60فیصد علاقے میں کاشت کاری ہوتی ہے۔ اب بھی سال بھر میں ایک ہی فصل بھوئی جاتی ہے۔اس حوالے سے سرحدی علاقع ساوجیاں سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن محمد بشیر بانڈے جن کی پچاس سال سے ذائید ہے ان کا کہناتھا کہ اگر چہ یہاں زمین بہت ہی زرحیزہے لیکن یہاں ساوجیاں میں صرف ایک ہی فصل ہوتی ہے۔ اس بار موسم نے اپنا روح بدل دیا۔ایک طرف لوگ کرونا وائرس سے گھروں میں مقید کر دئیے تھے۔مزدوری اور روزگار ختم کر دی، لوگوں کو اپنی جانوں کی فکر تھی،اپنے اہل و عیال کنبہ برادری محفوظ کرنے کا حوف تھا۔ دوسری جانب خراب موسم آندھی طوفان تیز ہواؤں اور دھندوئے ساوجیاں کے تمام علاقوں میں فصل اور جانوروں کا چارہ تباہ و برباد کر رہے تھے۔اکثر کرنا وائرس کے چلتے سرکار کی جانب سے بی پی ایل اوراے اے وائی راشن کارڈ ہو لیڈر کو مفت راشن نفر کے حساب سے تو فراہم کیا جاتا ہے۔لیکن پچاس فیصد غریب لوگ اے پی ایل راشن کارڈ ہولڈر ہیں۔ان کو کوئی سہولیات میسر نہیں ہے۔یہ تو انسانوں کا معاملہ ہے،جانوروں کا چارہ بھی بلکل حتم ہو چکا ہے۔
منڈی تحصیل کے گھوڑے نک سے تعلق رکھنے والے معشوق احمد جن کی عمر 35سال ہے،انہوں نے بتایا کہ گزشتہ کئی سالوں سے ریچھ کے نقصان کے ساتھ ساتھ(بوجو)لنگور اس قدر پھیل چکے ہیں کہ لوہیل بیلہ،براچھڑ بیلہ سیٹھی، اڑائی، راج پورہ دری پلیرہ سٹیلاں وغیرہ میں جب لوگ فصل کا بیج زمین میں ڈالتے ہیں تو یہ لنگوراسے نکال کر کھا جاتے ہیں۔اگر کچھ بچتا ہے تو فصل تیار ہونے پریہ لنگور پھر فصل کو برباد کر دیتے ہیں۔ان لنگوروں پر نہ ہی کتا روک تھام کر سکتا ہے اور نہ ہی انسان اس کی رکھوالی کر سکتا ہے۔کئی بار محکمہ ولڈ لائیف سے اس بارے میں بات چیت کی گئی لیکن کوئی توجہ نہیں ہوئی۔پنچائیت بٹل کوٹ لورن کے سرپنچ محمد رفیق ڈیکو جن کی عمر قریب 55سال ہے،انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال شدید بارشوں سے جہاں فصلوں کا بے تحاشا نقصان ہواہے وہیں میوہ جات اور پھل دار درختوں کا بھی بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔جہاں سے لوگوں کو سال بھر کیلئے جانوروں کا چارہ پورا ہوتا تھا اس سال وہ چارہ بلکل تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ مکئے کی فصل بلکل ہی بارشوں، تیز ہواؤں اور دھند کی وجہ سے تباہ ہو چکی ہے۔ رہی سہی کسر ریچھ نے پوری کر دی۔یہاں تک کہ ریچھوں نے متعدد لوگوں کو ذخمی بھی کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود انتظامیہ اس دیہی عوام کو درپیش مشکل کی گڑھی میں خاموش کیوں ہے؟کیا جنگلی جانوروں کی خفاظت اور ان کی مخفوظ پناہ گاہوں تک پہنچانے کا بھی کوئی محکمہ ہے یا نہیں؟اس سلسلہ میں جب محکمہ زراعت کے ایگریکلچر ایکسٹنشن آفیسر، منڈی کے پی سنگھ سے بات کی گئی تو ان کا کہناتھا کہ ساتھرہ سے لیکر اڑائی تک منڈی کی بیلٹ میں اس سال بیس سے پچیس فیصدی فصلوں کا نقصان ریکارڈ کیاگیاتھا۔جو سرپنچوں کی نگرانی میں ہمارے ملازمین نے زمینی سطح پر رپورٹ تیار کی تھی۔ لیکن اس میں انشورنس کمپنی نے گزشتہ سال سے محکمہ زراعت سے ناطہ توڑ لیاہے کیوں کہ وہ جس طرح کی زمینی سطح پر رپورٹ برارست طلب کرتی تھی ہم وہ بروقت فراہم کرنے میں اس لئے قاصر رہے کہ یہاں سرحدی اور پسماندہ علاقوں میں نیٹ ورک کا بحران رہتاہے۔ جس کی وجہ سے زمینی رپورٹ واقع رونما ہونے کے ایک یا دو گھنٹہ کے اندر فراہم نہیں کی جاسکتی ہے۔
وہیں محکمہ زراعت کے بلاک ساتھرہ میں بھی متعدد پنچائیتوں میں ہوے فصلوں کے نقصانات کے حوالے سے محکمہ زراعت کے ایگریکلچر ایکسٹنشن ایسیسٹنٹ، لورن شمیم احمد میر سے جب بات کی گئی تو ان کا کہناتھاکہ لورن بلاک میں ربیع کی فصل نہیں ہوتی ہے، یہاں صرف خریف کی فصل ہوتی ہے۔ جس میں لورن کی 14پنچائیتوں میں مکئی کی فصل لگائی جاتی ہے۔گزشتہ سال 2021 میں یہاں محکمہ کی جانب سے کرونا کے پیش نظر کوئی بھی پلاٹ نہیں لگایاگیاتھا۔ لیکن اس کے علاوہ مکئی کی فصل وقفہ وقفہ سے بارش،تیز ہواوں،اولوں، اور زمین پھسلنے سے 40سے پچاس فیصدی فصلوں کا نقصان ہواہے۔ جو کہ نقصان بناکر ڈائرکٹر آفس میں بھیج دیاگیا ہے۔ جو کہ محکمہ مال کی جانب سے لسٹیں فراہم کرنے کے بعد محکمہ خوارک رلیف کی صورت میں لوگوں کو مفت راشن فراہم کر رہا ہے۔
محکمہ کی جانب سے لوگوں کو مفت راشن فراہم کرانا اچھی بات ہے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر رلیف انسانوں کے لئے دی بھی جاے تو جانوروں کا چارہ جو تباہ و برباد ہوجاتاہے۔اس کا ازالہ کیسے ممکن ہے؟ چونکہ غریب دیہی عوام کا گزر بسرانہیں مال مویشیوں پر ہی ہوتاہے۔وہ اس کے بغیراپنی زندگی کو اجنبی تصور کرتے ہیں۔ایسے میں جموں وکشمیر کے منڈی، لورن اورساوجیاں جیسے تمام تر دیہی علاقوں میں محکمہ زراعت کے علاوہ محکمہ مال کو چاہئے کہ وہ شدید زالہ باری سے فصلوں،میواجات اور مال مویشی کے چارہ کے نقصان کا جائزہ لیکر معقول معاوضہ فراہم کرے۔ زمینی صورت حال تو یہ ہے کہ ابھی اس طرف کوئی دھیان تو جانے کی امید نظر نہیں آتی ہے مگرلوگوں کی آئیندہ کی توقع بھی بیکار نہ ہوجاے۔(چرخہ فیچرس)