قسط: اول
از۔ فاروق بانڈے
حال ہی میں ایک بیان میں، نیشنل کانفرنس کے صدر، ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے کہا کہ این سی آئندہ کسی بھی انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرے گی۔ 2018 کے پنچایتی انتخابات کے بائیکاٹ کے اپنی پارٹی کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پارٹی ہر آنے والے انتخابات میں حصہ لے گی۔ یہ بیان ابھرتی ہوئی سیاسی صورتحال کے پیش نظر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے ذاتی ردعمل کی عکاسی کرتا ہے یا اس بات پر اندون ِپارٹی اور اندرونِ خانہ بھی کوئی بحث ہوئی ہے اور یہ ان کامشترکہ فیصلہ ہے، اس بارے میں کچھ کہنا شاید قبل ازوقت ہوگا۔فاروق صاحب کے اس بیان سے چند ہی ہفتے قبل انہوں نے پارٹی کے نائب صدر،سابق وزیر اعلیٰ اور ان کے فرزند و پارٹی کے جانشین عمر عبداللہ کے بارے میں کہا تھا کہ وہ (عمر عبداللہ) اس وقت تک اسمبلی انتخاب نہیں لڑیں گے جب تک کہ جموں کشمیرکا ریاستی درجہ بحال نہیں کیا جائے گا۔یہاں پر بھی یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کیا ڈاکٹر فاروق نے عمر عبداللہ سے کچھ مشورہ کرکے،یا ان کی مرضی سے یہ بیان دیا،یا انہوں نے عمر عبداللہ کے اسی بیان کے تناظر میں یہ بات کہی جو انہوں نے طویل نظر بندی سے رہائی کے بعد 2020 میں دیا تھا اور جس میں انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت تک اسمبلی انتخابات نہیں لڑیں گے جب تک جموں و کشمیر ایک مرکز کے زیر انتظام علاقہ رہے گا۔ اس وقت انہوں نے کہا تھا، ”میں بالکل واضح ہوں کہ جب تک جموں و کشمیر یونین کے زیر انتظام علاقہ ہے، میں کوئی اسمبلی انتخابات نہیں لڑوں گا۔ سب سے بااختیار اسمبلی کا رکن رہنے کے بعد اور وہ بھی، چھ سال تک اس اسمبلی کے لیڈر کی حیثیت سے، میں ایسے ایوان کا رکن نہیں بن سکتا اور نہ رہوں گا جس طرح سے ہمیں بے اختیار کیا گیا ہو۔”۔ کیونکہ ڈاکٹر فاروق کے اس بیان کے بعد عمر عبداللہ کا نہ ہی کوئی مثبت اور نا ہی اسبارے میں کوئی منفی بیان آیا۔سیاسی حلقوں میں اسوقت بہت کھلبلی مچ گئی جب ڈاکٹر فاروق نے پارٹی صدر کے انتخاب کے وقت اپنے آپ کو اس سے الگ رکھنے کی یہ کہہ کر کوشش کی کہ پارٹی کو ایک نئی اور جوان قیادت کی ضرورت ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کایہ ماننا ہے کہ پارٹی کے اندر سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے اور الیکشن کی کچھ باتوں پر این سی میں اندرونی اختلافات ہیں، سبھی ممبران پارٹی صدر کی رائے سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔5 دسمبر کو جب پارٹی صدر کا انتخاب ہوا تو ڈاکٹر فاروق بلامقابل کامیاب قرار دے گئے۔5 دسمبر کو ہی پارٹی کے قدآور لیڈر مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی سالگرہ کے موقع پر ڈاکٹر فاروق نے یہ فرمایا کہ عمر عبداللہ کو بھی الیکشن میں حصہ لینا چاہئے۔ ایسا لگا کہ پارٹی کے سبھی پرانے نئے لیڈران کو اسبات کا بخوبی ادراک ہوا کہ الیکشن جب بھی ہوں گے، پارٹی کوڈاکٹر فاروق کی طلسماتی قیادت کی ضرورت پڑے گی اور ڈاکٹر فاروق کو بھی شاید یہ احساس ہوا کہ پارٹی میں نئے چہروں کو سامنے لانے کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ اگر زمینی سطح پر دیکھا جائے تو ڈاکٹر فاروق پارٹی کے نہ صرف سب سے مقبول لیڈر ہیں، اور اس کی وجہ سیاست میں آنے کے ابتدائی دنوں سے ہی لوگوں میں گھل مل جانے کی اس کی کوشش ہے۔
انتخابی بائیکاٹ جموں کشمیر کے لئے کوئی نئی چیز نہیں ہے۔اس کی شروعات 1953 میں اس وقت کے وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی گرفتار ی کے بعد شروع ہوئی۔ جموں کشمیر کے دوسرے وزیر اعظم بخشی غلام محمد سے لیکر پہلے وزیر اعلیٰ خواجہ غلام محمد صادق کے دور تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ جمہوریت کی دیوی کے داخلے کو لکھن پور سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اگرچہ کی بہت ہی محدود سیاسی سرگرمیاں ہوتی تھیں اور چند لوگ ہی الیکشن کے لئے اپنا فارم جمع کرتے تھے مگر انہیں بھی کسی نہ کسی بہانے سے الیکشن عمل سے دور رکھا جاتا تھا اور صرف حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو ہی بلا مقابلہ کامیاب قرار دے کراسمبلیاں قائم کی جاتی تھیں۔ 1957، 1962 اور 1967 کے اسمبلی انتخابات میں بالترتیب 43/75، 34/75 اور 22/75 حکمران جماعت کے امیدوار بلا مقابلہ کامیاب قرار دیے گئے۔ ان میں سے زیادہ تر امیدواروں کی تعداد کشمیر سے تھی جب کہ جموں میں صورت حال میں قدرے بہتر تھی۔ ایسا کیوں ہوا اور کرنے کیوں دیا گیا؟ ظاہر ہے کہ کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی، ریاستی سطح پر اور مرکزی سطح پر بھی۔
بلا مقابلہ انتخابات کا رجحان اس کے تنازعات کے بغیر نہیں تھا۔ اس تمام عرصے کے دوران یہ الزامات لگائے گئے کہ حکمراں پارٹی (1953 تک شیخ عبداللہ کی قیادت میں این سی؛ 1962 تک بخشی غلام محمد کی قیادت میں این سی اور 1967 کے انتخابات کے دوران جی ایم صادق کی قیادت میں کانگریس) اپوزیشن کے ساتھ جوڑ توڑ اور بلا مقابلہ واپسی کا انتظام کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہی۔ بخشی غلام محمد کی حکومت کے دوران، یہ الزام لگایا گیا تھا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں اور امیدواروں کو ڈرایا گیا تھا اور ان کے بھائی (بخشی کے بھائی) کی طرف سے چلائی جانے والی بدنام زمانہ ‘پیس بریگیڈ’ نے مخالف امیدواروں کو اس قدر بے چین کر دیا تھا کہ حزب اختلاف میں بہت سے لوگوں نے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ امیدواروں کے بلامقابلہ جیت کے مضمرات بہت واضح تھے۔ اس نے نہ صرف ہیرا پھیری والے جمہوری عمل کو متاثر کیا بلکہ واضح طور پر لوگوں کی بڑی تعداد کو انتخابی عمل سے خارج کرنے کی نشاندہی کی۔ پہلے سے چوتھے عام انتخابات تک بلا مقابلہ واپسی کے رجحان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیر میں ایک بڑی آبادی تھی جس نے بیس سال تک اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا۔ تعجب کی بات نہیں کہ جب جمہوریت باقی ہندوستان میں جڑ پکڑ رہی تھی، کشمیر میں عام ووٹروں کے لیے کوئی جگہ یا کردار نہیں تھا۔ جمہوری حکومتیں بنیں یا نابنیں، اہم پالیسی فیصلے ہو رہے تھے لیکن سیاست میں عام لوگوں کا کوئی دخل درآمدنہیں تھا۔1977ء میں جموں کشمیر اسمبلی کے لئے کئے گئے انتخابات یقینی طور پر یہاں کی سیاست میں ایک ٹرنیگ پونٹ تھے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے امیدوار کے لئے پولنگ سٹیشنوں تک آئی اور اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔یہ انتخابات اس وقت ہوئے جب مرکز میں مرار جی ڈیسائی کی قیادت میں ایک مخلوط سرکار تھی۔1971ء تک جو بھی اسمبلی انتخابات جموں کشمیر میں ہوئے مرکز میں اس دوران کانگریس کی سرکار ہی تھی۔
1977ء’1983 اور1987 کے انتخابات میں کشمیر کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایسا لگ رہا تھا کہ لوگوں میں سیاسی شعور بیدار ہونے لگا ہے اور اچھے اور برے امیدوار کی پہچان کرنے لگے ہیں، مگر 1987 کے انتخابات نے جمہوریت پر لوگوں کے اعتماد پر بڑا گہرا اثر ڈالا۔سیاسی ناقدوں کا خیال ہے کہ ان انتخابات میں مبینہ طور ایڈمنسٹریشن نے یک طرف ہوکر دھاندلیوں کے سارے ریکارڈ توڈ کر این سی اورکانگریس کے امیدواروں کا کامیاب قرار دلوا کر لوگوں کی جمہوریت پر اعتباری کو زک پہنچایا، اور اس طرح مرحوم جی ایم صادق کے زمانے کے ”خالق ڈی سی“ میڈ والے انتخابات کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔1987 کے انتخابات کے وقت بھی مرکز میں مرحوم راجیو گاندھی والی کانگریس کی ہی سرکا ر تھی۔
‘انتخابی سیاست کے بائیکاٹ’ کا دوسرا رجحان عسکریت پسندی کے دور میں شروع ہوا اور 2002 تک جاری رہا۔ یہ رجحان بنیادی طور پر ووٹروں یا سیاسی جماعتوں کی طرف سے علیحدگی پسندوں کے اثر و رسوخ کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندوں کے دباؤ کے تحت انتخابی مشق
کے بائیکاٹ کی عکاسی کرتا ہے۔- کشمیر نے 1989 کے پارلیمانی انتخابات جیسے حالات دیکھے جب کشمیری ووٹروں نے زیادہ تر انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا (اس الیکشن کے دوران کشمیر میں تقریباً 5% ووٹر ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا گیا تھا)۔ اگرچہ 1996 کے اسمبلی انتخابات کے دوران ووٹر ٹرن آؤٹ کچھ معقول تھا، اس کے باوجود کئی اسمبلی حلقے (خاص طور سے شہر سرینگر کے) ایسے تھے جہاں 13 فیصد سے کم ووٹر ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا گیا۔ کشمیر کے ان اور دیگر حلقوں میں 2002 کے اسمبلی انتخابات میں بھی ووٹر ٹرن آؤٹ کافی مایوس کن تھا۔ ووٹروں کا اتنا کم ٹرن آؤٹ نہ صرف عسکریت پسندوں کی دھمکی کا نتیجہ تھا بلکہ علیحدگی پسندوں کی ’بائیکاٹ سیاست‘ کا بھی نتیجہ تھا۔ 1990 کی دہائی سے 2002 تک، سیاسی جماعتیں باضابطہ انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکیں – نہ کوئی بڑاجلسہ ہوا، نہ کوئی جلوس نکلااور نہ ہی گھر گھر جا کر الیکشن مہم چلائی گئی ۔
اس کے بعد ایک اور رجحان آیا ۔ 2002 کے بعد مختلف انتخابات کے دوران، کشمیریوں نے عام طور پر بائیکاٹ کی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور اگرچہ علیحدگی پسند اور عسکریت پسند بائیکاٹ کی کال دیتے رہے، لوگوں نے ایسی کالوں کو نظر انداز کیا۔ اس طرح 2002 کے بعد ہونے والے مختلف انتخابات میں بڑے پیمانے پر لوگوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا ۔ 2008 کا اسمبلی الیکشن 1987 کے بعد اس طرح کا پہلا الیکشن تھا جب لوگوں کا زبردست سیاسی ردعمل دیکھنے میں آیا۔ علیحدگی پسند لیڈروں کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کی کال کے باوجود لوگوں نے اس کال کو یکسر نظر انداز کیا اور نہ صرف بڑے بڑے جلسے و جلوس دیکھنے کوملے بلکہ پولنگ بوتھوں پر بھی لوگ آئے اور اپنی حقِ رائے دہندی کا استعمال کیا۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں بھی اسی طرح ووٹروں کی اچھی خاصی تعداد میں شرکت دیکھنے میں آئی۔ یہ متحرک جمہوری سیاست کی صورت حال تھی کہ ووٹروں نے 2008- 2014 کے عرصے کے دوران علیحدگی پسندوں کے بائیکاٹ کی کال کو شعوری طور پر مسترد کر دیا تھا۔(جاری ہے)
