ہریانہ کے جند میں سڑک کے کنارے ایک ڈھابے پر ایک ہریانوی گانا زور زور سے بج رہا ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ”اگر اس عمر میں شادی نہیں کر پائے تو ایک ضروری بات سن لو، 30 سے 35ہزار کا انتظام کرو اور خرید کر بہو لے آؤ۔ریل پر بیٹھ کر کوئی بہار، کوئی آسام جاؤ،اور کم خرچ میں بہولے آؤ، آپ کو وہاں صرف ایک بار جانا ہے، بار بار جانے کی ضرورت نہیں ہے۔“بہار سے ہریانہ جانے والے کسی شخص کے کانوں میں یہ گانا گونجتا عجب لگ سکتا ہے، لیکن ہریانہ کے جند ضلع کے اس ڈھابے میں موجود لوگوں کے لیے یہ معمول ہے۔ جند ضلع کا نام ”جینتی دیوی“ (فتح کی دیوی) کے نام پر رکھا گیا ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ جند کے نام کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ مہابھارت کے دور میں پانڈووں نے کورووں سے لڑنے سے پہلے جیند میں جینتی دیوی کے اعزاز میں ایک مندر بنوایا تھا۔ بعد میں یہ جگہ پہلے جیت پوری اور بعد میں جند بن گئی۔بہرحال، 22 سالہ چھوٹے قدکی آروشی کے لیے بھی یہ سب اب’نارمل‘ کے زمرے میں آگیا ہے۔ اسے بہار کے کٹیہار سے شادی کے نام پر خرید کر لایا گیا تھا۔ اس نے بتایاکہ ”یہاں کھانا، پینا، لباس، بولی، رہن سہن سب مختلف ہیں۔ پہلے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا لیکن اب دن بھر کھیت اور گھر میں کام کرتے ہوئے وقت گزر جاتا ہے۔ دوسری طرف گذشتہ سات سالوں میں والدین یا کسی رشتے دار نے میرا حال تک نہیں پوچھا۔ اگر میں واپس بہار چلی بھی جاؤں تو وہاں کس پر بھروسہ کروں؟“
2011 کی مردم شماری کے مطابق،ہریانہ میں بہار، آسام، مغربی بنگال اور جھارکھنڈ سے دلہنیں خریدی جاتی ہیں، جہاں بھارت میں سب سے زیادہ جنس تناسب (ایک ہزار مردوں پرصرف 879) ہے۔ ان خریدی ہوئی دلہنوں کو’مول کی دلہنیں یاپارو‘ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ ہریانہ ریاست کے تمام 22 اضلاع میں ’پارو‘ کی موجودگی ہے، لیکن یہ کیتھل، جند، روہتک، سونی پت، جھجر، بھیوانی اضلاع میں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں۔دلہن کی خریداری اس ریاست میں اس قدر عام ہے کہ لیڈر الیکشن جیتنے کے لیے دوسری ریاستوں سے بہوؤں کو لانے کا وعدہ کرتے ہیں۔جند کے بی بی پور گاؤں کے سابق سرپنچ سنیل جگلان خواتین سے متعلق مسائل پر مسلسل کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے دوسری ریاستوں سے آنے والی ان بہوؤں کے لیے’پردیسی بہو، میری شان‘ اوران کی شادی کی رجسٹریشن جیسی مہم شروع کی ہے۔ سنیل نے بتایاکہ”ہمارے گاؤں کی آبادی تقریباً پانچ ہزار ہے، جس میں 3400 ووٹر ہیں۔ ہم نے ایک سروے کرایا تھا۔جس سے یہ معلوم ہوا کہ ہمارے گاؤں میں ہی 15 دلہنیں باہر سے لائی گئی ہیں جن میں سے 8 بہار سے ہیں۔“درحقیقت اس پورے علاقے یعنی جند کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی دلہن جو ریاست کے باہر سے یہاں آئی تھی وہ 1968 میں مغربی بنگال کی تھی۔ اس کے بعد ہریانہ سے جو لوگ دہلی اور کلکتہ دلہن لانے گئے، وہ لوگ ریڈ لائٹ ایریا سے لڑکیوں کو خرید کر ان سے شادیاں کرلیتے تھے۔ یہ لڑکیاں زیادہ تر مغربی بنگال اور اتراکھنڈ کی تھیں۔بعد میں جب ہریانہ کا معاشرہ بدلا یعنی کسانوں کے بچوں نے کھیتی باڑی کا کام بند کر دیا تو کھیتی کے لیے محنت کش ہاتھوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ایک طرف دھان کی کٹائی کے موسم میں بہار سے کھیتی کے مزدوروں کی نقل مکانی پنجاب ہریانہ کی طرف ہو رہی تھی تو دوسری طرف بہار کی غریب لڑکیوں کو ان کے والدین ان ہریانوی دولہوں کے ہاتھوں فروخت کر رہے تھے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ جند کے بڑے دیہات جہاں کی آبادی دس ہزار سے زیادہ ہے وہاں 300 سے 400 ایسی دلہنیں ہیں جنہیں خرید کر لایا گیا ہے۔ جبکہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں 10 سے 15 ایسی دلہنیں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ جند ضلع میں شملو کلاں، ہاٹ، روپ گڑھ، رادھانا سمیت کئی گاؤں ہیں جہاں دلہنیں خریدکر لائی جاتی ہیں۔ہریانہ کے ایک صحافی دھیریندر چودھری نے بتایا کہ ”ہریانہ میں لوگوں کے پاس زمین کی شکل میں اچھی خاصی جائیداد ہے لیکن لڑکوں کی شادیوں میں مسئلہ ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو لڑکے کم پڑھے لکھے ہیں اور دوم جنسی تناسب بڑا مسئلہ ہے۔ اب جن کے پاس زمین ہے، وہ اپنی جائیداد کا وارث چاہتے ہیں، اس لیے وہ دوسری ریاستوں میں جا کر شادی کے لیے لڑکی خریدنے سے نہیں ہچکچاتے ہیں۔ جند میں کیرالہ سے بھی لڑکیاں لائی جاتی ہیں۔ آسام جیسی ریاستوں سے آنے والی لڑکیوں کو زبان کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم بعد میں باہر سے آنے والی دلہنیں ہی اپنی ریاست کی ایجنٹ بن جاتی ہیں اور شادی کے لیے لڑکیاں فراہم کرنے کے نام پر پیسے کماتی ہیں۔“ ہریانوی سماج میں جن لڑکوں کوکمتر سمجھا جاتا ہے وہ بہار، آسام جیسی ریاستوں کی غریب لڑکیوں کے ممکنہ دولہا ہوتے ہیں۔ اس مسئلے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند سال قبل جند میں ”رانڈا یونین“ بنی تھی۔ یہ غیر شادی شدہ نوجوانوں کا اتحاد تھا جس نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں اعلان کیا تھا کہ وہ اسی لیڈر کو ووٹ دیں گے جو ان کی شادی کرائے گا۔ انہوں نے اس کے لیے نعرہ دیا تھا کہ بہو دو، ووٹ لو۔یہ دلچسپ بات ہے کہ بدنام زمانہ کھاپ پنچایتیں بھی ہریانہ کی جاٹ اور روڈ ذاتوں میں ہونے والی ان شادیوں پر کوئی احتجاج درج نہیں کراتی ہیں۔ عموماً یہ کھاپ پنچایتیں دوسری ذاتوں میں شادی کے حوالے سے احکامات جاری کرتی ہیں، لیکن باہر سے آنے والی ان بہوؤں کی ذات کے حوالے سے کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ ہریانہ میں ہریانوی زبان میں یہ کہا جاتا ہے کہ”بیراں کی بھی کے جات“ یعنی عورت کی ذات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔دوسری ریاستوں سے آنے والی یہ بہو ہریانہ میں بچوں کا ایک الگ سیٹ بنا رہی ہیں جو اپنی ماں کی ’ماتریہ راجیہ‘ (مادری ریاست) سے متاثر ہیں۔ یہ اثران کی قد سے چہرے تک پر صاف ظاہرہوتا ہے۔ سنیل جگلان نے بتایاکہ”میں ان بچوں سے ملنے جاتا رہتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بہاری دلہنوں کے بچے جو یہاں کے سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں بہت ذہین اور تیز ہوتے ہیں۔“
ہریانہ میں جہاں ان دوسری ریاستوں سے بہوئیں لائی جا رہی ہیں۔زمینی سطح پران کی حالت بہتر کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ لیکن ہریانہ سے ملحق اتر پردیش کے کچھ حصوں میں ان اسمگل شدہ لڑکیوں کوباقاعدگی سے نیلام کیا جا تا ہے۔ سال 2020 میں بلند شہرکے گڑھ علاقے میں ایسا ہی ایک معاملہ سامنےآیا تھا۔مقامی صحافی نریندر پرتاپ نے بتایاکہ لڑکی کو اسی دن رانچی سے بازارمیں لایا گیا تھا۔ اس کی سوتیلی ماں نے اسے 30 ہزار میں بیچ دیا تھا۔ یہاں بازار میں وہ شادی کے لیے نیلام ہو رہی تھی جس میں بولی لگانے والوں کی عمر 80 سال تک تھی۔ بعد میں جب کسی نے پولیس کو اطلاع دی تو لڑکی کو بچا لیا گیا۔بلند شہر سے 800 کلومیٹر دور جونپور کے گاؤں بھیروپور کی سنگیتا کی بھی یہی کہانی ہے۔ اس کے شوہر جے پرکاش نے اسے بہار کے پورنیہ سے خریداہے۔ جے پرکاش نے اپنی پہلی بیوی کی موت کے بعد سنگیتا سے شادی کی ہے۔ سنگیتا کو اپنے سسرال میں کھانے پینے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔لیکن وہ پردے (گھونگھٹ)سے پریشان ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ”پیٹ تو بھر جاتا ہے لیکن اس بھرے پیٹ کا کیا فائدہ جب دنیا کو کھلی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے، چہرہ بھی نہیں کھول سکتے“۔بہرحال جب تک ان ریاستوں میں جنس کا تناسب بہتر نہیں ہوگا،اس وقت تک سیتا کی سرزمین پر اس کی بیٹیاں روزاسی طرح نیلام ہوتی رہے گی۔ یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا اوارڈ 2022کے تحت لکھی گئی ہے۔(چرخہ فیچرس)