معاشی طور پر خود مختار ہونے کا خواب دیکھنے والی خواتین کیلئے جموں و کشمیر میں جموں وکشمیر رورل لائیو لی ہڈ مشن کے تحت ”اُمید“ اسکیم اس وقت دیہی خواتین کیلئے نا صرف ایک اُمیدہے بلکہ سہارا بھی بنتی ہوئی نظر آرہی ہے۔واضح رہے”اْمید“ا سکیم، حکومت ہند کی مالی اعانت سے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ایک فلیگ شپ پروجیکٹ ہے جو جموں و کشمیر یو ٹی میں سال 2018 میں شروع کیا گیا تھا۔ جس کا مقصد کشمیری خواتین اور ہندوستان کے دوسرے حصوں سے آنے والی خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔ جبکہ اس پروجیکٹ کے تحت خواتین کو چھوٹی بچت کرنے کی ترغیب دینے کے علاوہ سیلف ہیلپ گروپس قائم کرنے کا حو صلہ بھی دیا جاتا ہے تا کہ ان کے ذریعے کم سود کی شرح پر خواتین کو خود کفیل و با روزگار بنانے کیلئے قرض دئے جائیں۔ وہیں اُمید کے ذریعے سینکڑوں خواتین نہ صرف جموں و کشمیر میں اپنی کامیابی کی کہانیاں لکھ رہی ہیں بلکہ دوسروں کو غربت سے باہر آنے اور کامیاب کاروباری بننے کی ترغیب بھی دے رہی ہیں۔علاوہ ازیں مشن خواتین کاروباریوں کو اپنی مصنوعات کی نمائش اور مارکیٹنگ میں بھی بے حد مدد کر رہا ہے۔وہیں حالیہ دنوں جموں وکشمیر رورل لائیو لی ہڈس مشن (اُمید) اور ہندوستان کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی اِنٹرنیٹ کامرس کمپنی میشو نے 1,800 سیلف ہیلپ گروپوں کی ترقی میں آن لائن پلیٹ فارم پر اَپنے کاروبار کو شروع کرنے، بڑھانے اور دیہی خواتین اَنٹرپرینیوروں کو بااِختیار بنانے کے لئے ایک مفاہمت نامے پر دستخط کئے ہیں۔
یہ دستخط لیفٹیننٹ گورنر منوج سِنہا کی موجودگی میں کئے گئے۔اِس موقعہ پر لیفٹیننٹ گورنر نے سیلف ہیلپ گروپوں کی خواتین اَنٹرپرینیوروں اور میشو کے اَفسران کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ یہ شراکت رورل کمیونیٹوں کی زندگی اور ذریعہ معاش کی تعمیر میں مدد کرے گی اور دیہی خواتین کاروباریوں کو معاشی سرگرمیوں اور مالی آزادی تک زیادہ سے زیادہ رَسائی فراہم کرے گی۔اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ رورل لائیو ہڈس مشن اور اِی۔ کامرس کی بڑی کمپنی میشو کی شراکت جموں وکشمیر کی مخصوص مصنوعات کو وسیع تر کسٹمربیس کے لئے دستیاب کرنے، ایس ایچ جیز کو ان کے کاروبار کو بڑھانے کے لئے عالمی مارکیٹ فراہم کرنے اور اُنہیں اتما نربھر بنانے میں ایک اہم قدم ہے۔ اس موقع پر میشو کے شریک بانی او رسی ٹی او سنجیو برنوال نے کہا،”ہمیں اِی۔ کامرس کو جمہوری بنانے کے اَپنے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے’اُمید‘ جے کے آر ایل ایم اور جموں وکشمیر حکومت کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔خواتین کاروباری اَفراد ہندوستان کی معیشت کی ترقی کا ایک اہم حصہ ہیں اور میشو نے ان میں سے لاکھوں کو آن لائن دُنیا میں کامیاب ہونے کے لئے بااِختیار بنایا ہے۔ اِس شراکت داری سے ہم اُمید کرتے ہیں کہ اس سمت میں اَپنی کوششوں کو مزید وسعت دیں گے اور جموں وکشمیر کے ان سیلف ہیلپ گروپوں کو ان کی مکمل صلاحیتوں کا اِدراک کرنے کے قابل بنائیں گے۔ انہوں نے اس بات کی بھی یقین دہانی کروائی کہ ہم اُنہیں وہ تمام ٹولز او ررہنمائی فراہم کریں گے جن کی انہیں میشو کے ساتھ اَپنے کاروبار کو آن لائن بڑھانے کے لئے درکار ہے۔
وہیں مشن ڈائریکٹر جے کے آر ایل ایم محترمہ اِندو کنول چِب نے مفاہمت نامے کے اہم پہلوؤں کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ میشو کے ساتھ شراکت داری نہ صر ف ایس ایچ جی خواتین کو ان کی مصنوعات کی اچھی قیمتیں فراہم کرے گی بلکہ ان کی کاروباری ترقی کے لئے ایک نئی شناخت بھی فراہم کرے گی،جس سے خواتین کاریگروں کو ممکنہ طور پر وسیع مارکیٹ بیس تک رَسائی حاصل ہوگی جبکہ مقامی طور پر تیار کی جانے والی جموں وکشمیر سے منفرد مصنوعات ملک بھر میں میشو کے لاکھوں صارفین کے لئے دستیاب ہوں گی جس سے دیہی کاروبار کو تقویت ملے گی۔ تاہم اس سے صاف ظاہر ہے کہ یو ٹی انتظامیہ بذات خود جموں و کشمیر میں اس مشن کو کامیاب بنانے کیلئے کو شاں ہے۔ وہیں جب اس حوالے سے راقم نے سرحدی ضلع پونچھ کے تحت تحصیل منڈی کی کچھ خواتین سے جاننے کی کوشش کی جو گزشتہ چند مہینوں سے اُمیداسکیم سے وابسطہ ہیں تو انہوں نے اُمید اسکیم کو اپنے لئے اُمید کی ایک کرن بتاتے ہوئے کئی کہانیاں سنائی۔ منڈی کے گاؤں آعظم آباد کی رہنے والی سفینہ بیگم عمر 25سال بتاتی ہیں کہ میں نے اُمید اسکیم کے تحت 25000روپے کا لون لیا جس میں سے 2500کی ایک بکری خریدی جس نے د و بچے دئے اُس کے بعد میں نے ان کو پال کر دس ہزار روپے میں فروخت کیا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ان کی بکری پھر سے بچے دینے والی ہے، اور اسی آمدنی سے انہوں نے اپنے لون کی سات قسطیں بھی ادا کر دی ہیں۔ وہیں اسی گاؤں کی رہنے والی پروین جان عمر 30سال بتاتی ہیں کہ میں نے اس اسکیم کے تحت 50ہزار لون سے اپنا کا روبار شروع کیا جو کہ میں نے سو قسطوں میں ادا بھی کر دیا۔
اس حوالے سے رخسانہ کوثر کہتی ہیں کہ میں نے 2016 میں امید اسکیم میں شمولیت کی،ہم لڑکیوں نے مل کر سیلف ہیلپ گروپ بنائے۔انہوں نے کہاکہ میرے گروپ کو مشن کی جانب سے ریوالونگ فنڈ کے طور پر 15000 روپئے آئے اور میں نے ان روپیوں سے اپنے گھر پر مرغی فارم کھولا اس کے بعد جب میرے گروپ کو چھ مہینے ہوئے تو مجھے مشن کی طرف سے چالیس ہزار روپئے آئے تو میں نے سوچا میں اپنے روزگار کو تھوڑا اور بڑھاؤں۔میں نے اس رقم سے چھوٹی سی دوکان کھولی،جب مجھے اپنے بزنس میں فائدہ ہونے لگا تو میں نے اُمیدا سکیم سے اور لون لیا پھر میں نے اپنے ہی گھر میں سلائی سنٹر کھولا جس میں پانچ لڑکیوں کو بھی اپنے ساتھ رکھا تاکہ ان لڑکیوں کے گھر بھی چل سکیں۔وہیں رخسانہ کا کہنا ہے کہ اس کے بعد میں نے اپنے گھر کے اندر ڈیری فارم بھی کھولااور جب مجھے کاروبار کی مزید جانکاری ہونے لگی تو میں نے ایک اچار اورجیم کا یونٹ بھی لگایا جس کیلئے میں نے مشینری سری نگر سے منگوائی آج میں اپنے گھر کے اندر جیم اور اچار بناتی ہو ں اور مارکیٹ کے اندر میرا جیم اور اچارفروخت ہوتا ہے۔انکا مزیدکہناہے کہ میں ماہانہ اچھے پیسے کما لیتی ہوں۔وہیں ان کے طرح نصر ت نام کی ایک اور انٹر پرنیر نے بتایا کہ یہ اپنی بہن کے ساتھ امید اسکیم کے تحت قائم کردہ خود مددگار گروپ کی ممبر بنی۔اپنی بہن سے سیکھتے ہوئے نصرت اب اس گروپ کی نمائندگی کر رہی ہیں۔
نصرت کا کہنا ہے کہ میری بہن کی شادی کے بعد اس گروپ کی بھاگ دوڑ میں نے سنبھالی اور اب احسن طریقے سے اپنے گروپ کو چلا رہی ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ میرے کاروبار میں بیگ، سویٹر، مفلر،بے بی سیٹ بنانا شامل ہے۔انکا کہنا ہے کہ ہم اس کام کو اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی ہیں۔اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ سارا کام میرے ساتھ میرا گروپ کر رہا ہے اور اپنے کاروبار سے ماہانہ اچھی آمدنی کر لیتی ہوں۔وہیں نصرت کا ماننا ہے کہ اگر ہمارے گروپ کے تیار کردہ سامان کی مارکیٹنگ اچھی ہوجائے تو ہماری آمدنی میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ تو اب جبکہ یوٹی انتظامیہ نے میشو جیسے ای کامرس ڈیجٹیل پلیٹ فارم کو اُمید اسکیم سے جوڑا ہے تو اس سے اُمید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل قریب میں جموں و کشمیر کی دیہی خواتین کے تیار کردہ مصنوعات نہ صرف مقامی بلکہ قومی سطح پر فروخت ہونگے۔ (چرخہ فیچرس)