
جموں وکشمیرکو یونین ٹیراٹری بنے ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ اچانک پورے ملک کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کے چپہ چپہ میں کویڈ 19کی لہر نے کہرام مچادیا۔ تمام تر دیگر نظام کے ساتھ ساتھ تعلیم کا نظام بھی تباہ وبرباد نظر آیا۔دوسال میں اس لہر نے تعلیم کے نظام اور بچوں کی تعلیم پر گہرے منفی اثرات مرتب کئے۔ دیگر اضلاع کے ساتھ ساتھ سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی میں تو تعلیمی نظام دھرم بھرم ہوکر رہ گیا۔ اس نظام کی قسم پرسی کا اندازہ اس بات لگایاجاسکتاہے کہ منڈی ایجوکیشن زون میں ایک سال کے عرصہ میں ہائی سکول گگڑیاں میں ایک ہیڈ ماسٹر تعینات کیاگیاہے۔ ایجوکیشن زون منڈی کے سکولوں میں تعینات عملہ ہیڈ ماسٹر اور پرنسپل کے بارے جب ہیڈ کلرک زونل ایجوکیشن آفس منڈی محمد یونس سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایاکہ منڈی ایجوکیشن زون کے کل 158 سرکاری سکول ہیں۔جن میں ہائیر سیکنڈری 5،ہائی سکول 8،مڈل سکول 53،کے جی بی وی 1اورپرائیمری سکول 91ہیں۔جن میں 49 مڈل سکولوں میں ہیڈ ٹیچر نہیں ہیں جبکہ 5اسکولوں میں ہیڈ ٹیچر اور وارڈن تعینات ہیں۔8ہائی میں سے 6میں ہیڈ ماسٹر ہیں جبکہ 2سکولوں میں ہیڈ ماسٹر کی پوسٹ ہی نہیں ہے۔جن میں ایک ہائی سکول اڑائی ملکاں،اور ہائی سکول ڈنوں گام شامل ہیں۔ ان دونوں ہائی سکولوں میں ہائی کلاس کا عملہ سنکشن ہی نہیں اور نہ ہی ہیڈ ماسٹر کی پوسٹیں سیکشن ہیں۔ جب ان دونوں رمساء کے تحت بننے والے ہائی سکولوں کا درجہ تو بڑھایاگیالیکن عملہ ابھی تک سنکشن ہی نہیں ہے۔
ہائی سکول اڑائی ملکاں میں استاتذہ کی قلت اور بچوں کی بڑھتی تعداد کو لیکر والدین سخت پریشان ہیں۔ امتیازاحمد ملک جن کی عمر 39سال ہے ان کے تین بچے ہائی سکول اڑائی ملکاں میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کے مطابق پہلے یہ سکول بہت اچھے طریقے سے چل رہاتھا۔ یہاں جموں وکشمیر سے پہلے خصوصی دفعہ کی منسوخی کے بعد پھر دو ڈھائی سال کویڈ 19 کے ظلمت کا دور گزرا۔جب پورے تین سالوں تک ہمارے بچے تعلیم سے محروم رہے۔2022میں جب سکول کھلے تھے تو بچے تعلیم سے بلکل کورے ہو چکے تھے۔ جب سکول کھلنے پربچے پہونچے تو وہاں پر ان کی ایک بڑی تعداد کو ادھر ادھر سے روکنے اوراکٹھے رکھنے کیلئے بھی عملہ مشکل سے دستیاب تھا۔ایسے میں وہ تعلیم کس طرح دیں گے؟امتیاز ملک نے کہاکہ یہ حکومتیں اور انتظامیہ کس کام کی جب ہمارے سکول میں استاد مہیاکرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں؟ اس حالت سے بچوں کے پچھلے تین سالوں کا فاصلہ کیسے طے ہوگا؟ کس طرح ہمارے بچے شہروں اوردیگر ریاستوں کے بچوں سے مقابلہ کرسکیں گے؟ایک اور والدین حافظ عبدلرحیم جن کی عمر 36سال ہے، کا کہناہے کہ کسی علاقہ کی ترقی اور خوشحالی کے لئے تعلیم ریڑ کی ہڈی کا کام کرتی ہے اور اچھی تعلیم کے لئے اچھی عمارت اتنی کارگر نہیں جتنا علم سیکھانے والے استادہوتے ہیں۔ہائی سکول اڑائی ملکاں کی بہترین عمارت ہوتے ہوے یہاں اساتذہ کی کمی نہیں بلکہ سرے سے ہے ہی نہیں، تو ہم کس طرح یہ یقین کرلیں کہ ہمارے بچے پڑھ پائیں گے؟ انہوں الزام لگایا کہ اس طرح سے توہمارے بچوں کی اس زندگی کو برباد کیاجا رہا ہے؟ آخر اس ترقی یافتہ دور میں ہمارے بچے بہترتعلیم سے حاصل کرنے سے محروم کیوں ہیں؟انہوں نے سوال کیا کہ جب اس سکول میں پوسٹیں سنکشن نہیں کرنی تھیں تو سکول کو مڈل سے ہائی سکول کا درجہ کیوں دیا؟اگر اس سکول کو اور اس جیسے اور کسی سکول کی یہ حالت ہے توانتظامیہ پوسٹیں سنکشن کرکے اس میں اساتذہ کا نظم کرے۔ اگرممکن نہیں ہے تو سکول کو بندکرکے بچوں کے والدین کو جواب دے دیں۔
اس حوالے سے ہائی سکول اڑائی ملکاں کے گیارویں کلاس کے طالب علم ابراہیم احمد کاکہناتھاکہ جب سے سکول کھلے ہیں اس وقت سے اساتذہ کے بغیر ہماری تعلیم سخت متاثر ہورہی ہے۔ یہاں سال بھر کبھی ایک سبجیکٹ کبھی دو سبجیکٹ ہی پڑھاے گئے ہیں۔کبھی وہ گھنٹہ بھی نہیں لگ پاتاہے۔ یہی سلسلہ سال بھر سے جاری ہے۔ جب استاد ہی نہیں ہیں تو پڑھاے گاکون؟ دسویں جماعت کی طالبہ مسرت ناز سخت الفاظ میں اظہار دکھ کرتے ہوے کہتی ہیں کہ یہاں سرکار اور انتظامیہ کی ان دعوں کی بنیادیں کھوکھلی ثابت ہوتی ہیں۔ جن میں کہاجاتاہے کہ،بیٹی پڑھاو اور بیٹی بچاو، یہاں کی بیٹیاکیسے پڑھیں گیں جب یہاں کوئی پڑھانے والاہی نہیں ہے؟یہاں تمام نصاب کے استادبھی نہیں ہیں۔پہلے کویڈ 19کا دو تین سال دور چلا۔ تب ہم ساتویں میں زیر تعلیم تھیں۔ آب جبکہ سکول کھلے تو امید تھی کہ کچھ نہ کچھ تعلیم نصیب ہوگی۔ لیکن استاد کے نہیں ہونے سے پوراسال بربادہو گیا ہے۔یہ نام کاہائی سکول ہے یہاں تو مڈل سکول کا عملہ بھی مکمل نہیں ہے۔دسویں جماعت کی طالبہ یاسمین اختر کا کہناتھاکہ کویڈ کا سنگین دور گزراجس میں تعلیم سخت متاثر رہی۔ اب سکول جب دوسال بعد کھلے تو یہ سال بھی اسی طرح نکلا۔ ہائی سکول میں دس گیارہ جماعتوں کو پانچ استاد کس طرح پڑھاسکیں گے؟اگر چہ اساتذہ کوشش کررہیں۔لیکن اتنی جماعتوں کے طلباء وطالبات کو ہر سبجیکٹ کس طرح پڑھاسکتے ہیں؟اس حالت میں ہم امتحانات میں کیا لکھیں گے؟ کیوں کہ ہم نے آج تک حساب اور انگلش کی کتابوں کو دیکھابھی نہیں ہے۔جب کتابیں ہی نہیں دیکھیں تو امتحانات میں کیا لکھیں گے؟دوسال کویڈ 19نے اور رواں سے اساتذہ کی عدم دستیابی نے ہمیں تعلیم سے محروم کردیاہے۔شاہد اقبال جو نویں جماعت کا طالب علم ہے،اس نے کہاکہ اس دوردراز علاقہ کے ہائی سکول اڑائی ملکاں میں اب کچھ ہی دنوں میں چھٹیاں پڑنے والی ہیں۔یوں تو ساراسال ہماراچھٹیوں جیساہی گزرا۔ کچھ بھی نہیں پڑھ پاے ہیں۔ متعدد بار کھیلوں میں حصہ لیالیکن ہار کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔یہاں جب کوئی فیزیکل ٹیچر ہی نہیں تو ہم کس طرح سے کسی پروگرام یا کھیل کود میں حصہ لے سکتے ہیں؟
اس حوالے سے جب سکول انچارج ٹیچر ماسٹر محمد دین سے بات کی گئی تو ان کا کہناتھاکہ 2015میں ہائی سکول اڑائی ملکاں کو جموں وکشمیر میں رمساء سکیم کے تحت 2015میں ہائی سکول کا درجہ ملا۔2016میں یہاں نویں جماعت میں داخلہ شروع ہوا۔ اس وقت سے لیکر آج تک اس سکول میں پوسٹیں منظور نہیں کی گئی۔اس سکول میں ماسٹر گریڈ کی ایک اسامی بھی خالی ہے۔ایک ٹیچر اور ایک فیزیکل ٹیچر کی پوسٹ بھی خالی ہے۔ صرف پانچ افراد پر مشتمل عملہ ہے۔جو جتناہوسکتاہے۔ کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جس قدر بچوں کو تعلیم یا مضمون پڑھانے کی ضرورت ہے و ہ پوری نہیں ہوپاتی ہے۔اس لئے کہ ہمارے پاس 329 سے زائید طلباء وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ دس جماعتوں کے پانچ پانچ سبجیکٹ پڑھانا نہائیت دشوار ہوتا ہے۔2016 میں مضامین پڑھانے کے لئے مخصوص اساتذہ تعینات کئے گئے تھے۔ جنہیں کچھ ہی عرصہ کے بعد نکال دیاگیا۔ تب سکول میں میٹرک کا بہترین نتیجہ رہا۔اس وقت 56فیصدی نتیجہ رہاتھا۔اس کے بعد سے کم ہوتے ہوے گزشتہ سال میٹرک کا رزلٹ کم ہوکر پینتیس فیصدی تک پہونچ گیا۔جس کی وجہ یہاں سٹاف کی کمی ہے۔مارچ 2022میں جب کویڈ 19کے لمبے عرصہ بعد سکول کھلے تھے۔تب دو اساتذہ کو یہاں اٹیچ کرکے تعینات کیاگیاتھا۔ لیکن اب وہ دو بھی اپنی اپنی پوسٹوں پر چلے گئے ہیں۔
غرض پہلے سے بھی اس سکول کا تعلیمی نظام ناقص ہواہے۔ اگر یہاں والدین کو اپنی بچوں کی تعلیم کا فکر ہوگا تو وہ ہمارے محکمہ تعلیم کے اعلی حکام سے رجوع کریں۔وہاں سے پوسٹیں منظور کروائیں۔یہاں ہائی سکول کا عملہ تو درکنار مڈل سکول کے بھی ایک ہیڈ ماسٹر ایک فیزیکل ٹیچر کی پوسٹ خالی ہے۔یہاں کے مقامی علاقہ منڈی کے متعدد سرکاری سکولوں میں اب دن بدن تعلیمی نظام بدسے بدتر ہوتاجارہاہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتاہیکہ یہاں تعلیمی نظام کو بہتر کرنے میں موجودہ انتظامیہ بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔جن کی ناکامی کی وجہ سے یہاں سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم طلباء بلخصوص طالبات تعلیمی پسماندگی کی طرف رواں دواں ہیں۔سوال یہ کہ اس بگڑے نظام سے اچھی تعلیم کا خواب کب تعبیر ہوسکے گا؟ (چرخہ فیچرس)
