
دنیا بھر میں آج بھی ہندوستان غربت کے شر ح سے 6 فیصد پر ہے۔ آسان لفظوں میں کہا جائے تو 83 بلین آبادی آج بھی غربت میں جینے کیلئے مجبورہے۔ ہندوستان کی کل آبادی1.4بلین ہے۔ملک آج بھی ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ بیشک اس کی معیشت آج بھی ترقی کر رہی ہے لیکن یہاں آج بھی غربت ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کی اصل وجہ بے روزگاری ہے۔ملک میں 29.9 فیصد بیروزگاری ہے۔یہاں کے ہر باشندے کو روزگار کا حق ہے لیکن روزگار حاصل کرنے کیلئے پریشان ہے اور اس روزگار کیلئے اسے کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ وہیں اگر مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیرکی بات کی جائے تو یہاں بھی ایک بڑا طبقہ بے روزگاری کا سامنا کر رہا ہے۔ خبروں کے مطابق جموں و کشمیر سروسز سلیکشن بورڈ کی قیادت میں ہونے والے فائنانس اکاؤنٹ اسسٹنٹ کے امتحان میں ایک لاکھ پچانوے ہزار کے لگ بھگ امیدوار بیٹھیں گے جب اس کیلئے کل اسامیاں ایک ہزار سے بھی کم ہیں۔ درج بالا اعداد و شمار سے بخوبی پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں کی بے روزگاری کس سطح پر ہے۔وہیں اگر ہم جموں کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کی بات کریں جو آئے دن خبروں میں رہتا ہے میں بڑی تعداد میں نوجوان بے روزگاری جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔سرحدی ضلع پونچھ کے بلاک منکوٹ کے ضلع ترقیاتی کونسل ممبر چودھری عمران ظفر کا کہنا ہے کے دفعہ 370 کی منسوخی کے پہلے سرکار نے وعدہ کیا تھا کہ جموں کشمیر کی عوام کوروزگار دیں گے اوریہ بھی وعدہ کیا تھا کے نجکاری لائیں گے لیکن ایسا ہوانہیں۔انہوں نے کہاکہ جب تک یہاں سرکار نہیں بنے گی تب تک ایسے ہی حالات رہیں گے اورجموں کشمیر کے نوجوانوں کو بے روزگاری کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔انکا مزید کہنا تھا کہ یہاں کی بے روزگاری کے پیچھے ایک وجہ کمزور تعلیمی سلسلہ بھی ہے کیونکہ کئی اسکول میں عملہ کی کمی ہے جہاں اسکول میں 20 یا 25 استادہونے چاہیے وہاں پانچ،سات ہیں۔انہوں نے کہاکہ زمینی سطح پر مقابلہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے اور اسکولوں میں اساتذہ کی کمی یہاں ایک اہم مسئلے کو جنم دیتی ہے۔عمران ظفر کہتے ہیں جب سے میں نے ڈی ڈی سی ممبر کا عہدہ سنبھالا ہے تب سے انہی مدعوں کو اٹھاتا رہا ہوں لیکن یہاں کے تعلیمی معیار میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی ہے۔
قارئین بے روزگاری سماج میں کئی مسائل کو جنم دیتی ہے۔سماج میں کئی مسائل بشمول منشیات کو بے روزگاری جیسے مسائل نے پروان چڑھایا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک تعلیم یافتہ انسان کبھی سماج میں خلل پیدہ نہیں ہونے دیتا لیکن ایک بے روزگار اور ناخواندہ شخص سماج میں ایسے مسائل کو جنم دیتا ہے۔اگر بے روزگاری جیسے مسائل پر قابو پالیا جائے تو سماج میں کافی بہتری آسکتی ہے اور سماج سے جرائم میں بھی کمی آئے گی۔بے روزگاری کے مسائل کو اگر زمینی سطح پر دیکھا جائے تو کئی نوجوان اعلی سے اعلی ڈگریاں لے کر گھر بیٹھے ہیں کچھ ہنر مند ہونے کے باوجود بھی گھر بیٹھے ہیں کیونکہ ان کے پاس بھی کوئی ذریعہ معاش نہیں۔بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے مرد تو اپنے ملک سے دوسرے ملک جا کر محنت مزدوری کرتے ہیں اور گھر میں دو وقت کی روٹی میسر کرنے میں لگے ہیں لیکن ان کے بر عکس خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو کر بھی گھر وں میں مقید ہو کر رہ گئی ہیں کیونکہ ان کے پاس ایسے وسائل نہیں ہیں کہ وہ بھی اپنی روزگار کر سکیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حکومت دیہی سطح تک کئی سارے فلاحی پروگراموں اور اسکیموں کو لے آئی ہے لیکن بے روزگاری جیسے مسائل آج بھی موجود ہیں۔
جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ کی تحصیل منکوٹ میں رہنے والی سلمہ 24 کا کہنا ہے کہ میڈیکل فیلڈ میں گریجویشن کر کے گھر بیٹھی ہوں کیونکہ جموں کشمیر سے باہر جا کر پرائیویٹ نوکری کرنے کی گھر سے اجازت نہیں ہے اور پونچھ میں کوئی بھی ذریعہ نہیں ہے کہ وہاں کوئی ایسی روزگار کی جا سکے۔انہوں نے مزیدکہا کہ مجھے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ میں نے ڈگری صرف گھر رکھنے کے لیے اور خود دیکھنے کے لئے ہی کی ہے کیونکہ ابھی تک اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو سکا ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ آگے اور پڑھنے کے لیے مجھے ایک سال کا تجربہ چاہیے لیکن اب ضلع پونچھ میں کوئی ایساذریعہ ہی نہیں ہے اور بیرونی ریاست میں جانا میرے لئے کسی مشکل سے کم نہیں ہے۔سلمہ کا کہنا ہے کہ صرف انتظار کر رہی ہے کہ کوئی نرسنگ جاب کے لئے پوسٹ نکلے اور میں درخواست دوں اور کوئی روزگار ملے۔ظہیر عبّاس 29 جن کا تعلق تحصیل مینڈھر کے ساگرہ سے ہے ایم ایس سی کر کے بے روزگاری کا سامنا کر رہے ہیں۔وہ مزید کہتے ہیں گھریلوں حالات کو چلانے کیلئے مسافر گاڑی چلانے پر مجبور ہو چکا ہوں۔ انکا مزید کہنا تھا کہ ڈگری تو میرے پاس ہے لیکن سرکاری نوکری نہ ہونے کی وجہ سے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ محمدجہانگیر 30ایم ایس سی کا کہنا ہے تین سال قبل ایم ایس سی کی تھی لیکن سرکاری نوکری ابھی تک حاصل نہیں ہوئی۔انہوں نے مزیدکہا کہ عمر کا ایک حصہ نوکری کی تلاش میں گزر گیا ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اسامیوں کی بھرتی ہوتے ہوتے ہی عمر کی حد گزر جائے گی کیونکہ جموں و کشمیر میں ایک فارم لگانے کے بعد امتحان کیلئے برسوں لگ جاتے ہیں۔
عاصمہ 24 نے بی ایڈ کی ڈگری کر رکھی ہے اور ان کا ماننا ہے کہ یہ ڈگری ان کے کسی کام کی نہیں ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ یہاں پر جاب ریکروٹمنٹ ہی نہیں ہے اور نوجوان بے روزگاری جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔یہاں عاصمہ اور سلمہ جیسے بہت لوگ ہیں جن کے پاس ڈگری بھی ہے اورہنر بھی ہے لیکن ان کو کوئی کام کرنے کو نہیں ملتا اور سرکاری نوکری کے متلاشی یہ نوجوان بے روزگاری جیسے سنگین حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔قارئین بیروزگاری کے حالات یہاں جموں وکشمیر میں ایسے ہیں کہ نوجوان ایس پی او کی نوکری کیلئے بھی ترس رہے ہیں۔اس سلسلے میں سرکار کا ایک موثر پالیسی کے ساتھ سامنے آنا چاہئے تاکہ تعلیم یافہ اور ہنر مند نوجوانوں کو روزگار کی تلاشپنی زندگیوں کا کافی حصہ برباد نہ کرنا پڑے۔(چرخہ فیچرس)
