پیر کو پارلیمنٹ کے ایون زیریں میں جموں کشمیر کے لئے رواں سال کا مالی بجٹ پیش کیا گیا ۔ یہ اس نوعیت کا چوتھا بجٹ ہے جو مرکزی وزیرخزانہ نے لوک سبھا میں منظوری کے لئے پیش کیا ۔ مالی سال 2023-24 کے لئے کل بجٹ تخمینہ 1,85,500 کروڑ روپے پر مشتمل ہے جس میں سے 41,491 کروڑ روپے تعمیر اور ترقیاتی اخراجات کے لئے مختص کئے گئے ہیں ۔ بجٹ پیش کرتے وقت وزیرخزانہ نے امید ظاہر کی کہ نئے بجٹ سے جموں کشمیر میں انتظامی ڈھانچہ تعمیر کرنے میں مدد ملے گی ۔ منتخبہ حکومت کی عدم موجودگی میں پچھلے کئی سالوں سے بجٹ تخمینہ جات پارلیمنٹ میں پیش کئے جارہے ہیں اور وہاں سے منظوری کے بعد مختلف مدات کے لئے رقوم واگزار کئے جاتے ہیں ۔ تازہ بجٹ ایک مہینے کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع کئے گئے پارلیمنٹ اجلاس کے پہلے روز پیش کیا گیا ۔ بجٹ کے حوالے سے پچھلے کئی ہفتوں سے گفت و شنید جاری تھی ۔ طویل انتظار کے بعد بالآخر بجٹ کو منظر عام پر لایا گیا اور ایک بڑی رقم جموں کشمیر کے لئے مخصوص کی گئی ہے ۔
مالی بجٹ ایک تکنیکی مصودہ ہے جس کو پڑھنا ، سمجھنا اور اس پر رائے زنی کرنا عام شہری کے لئے ممکن نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کی رائے سامنے آنے سے پہلے بجٹ کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے ۔ جموں کشمیر کے مالی بجٹ پر ابھی بحث ہونا باقی ہے اور مختلف حلقوں کا کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا ہے ۔ اس وجہ سے بجٹ کے بارے میں مثبت یا منفی رائے پیش کرنا ممکن نہیں ہے ۔ تاہم یہ اندازہ لگانا غلط نہیں کہ سرکار ھامی حلقے بجٹ کی تعریف جبکہ اپوزیشن ضرور مخالفت کرے گی ۔ ملک میں ابھی ایسا ماحول بن نہیں پایا ہے کہ کسی تعصب سے ماورا صحیح اور غلط خیالات کا اظہار کیا جائے ۔ پچھلے تین سالوں کے دوران پارلیمنٹ میں جو بجٹ پیش کئے گئے ان کے حوالے سے یہ وطیرہ اپنا یا گیا ۔ اس صورتحال کو پس پشت ڈال کر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس دوران حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے باوجود اطمینان بخش نتائج سامنے آنا باقی ہے ۔ حکومت کا یہ کہنا بجا ہے کہ تین یا چار سالوں کے اندر مکمل تبدیلی آنا ممکن نہیں ۔ یہ ایک طویل مدتی کام ہے جو مختصر عرصے کے اندر انجام نہیں دیا جاسکتا ۔ اس کے باوجود عوامی حلقوں میں اس بات پر تشویش پائی جاتی ہے کہ خطے میں بے روزگاری میں بڑی تیز رفتاری سے اضافہ ہورہاہے ۔ ماضی میں دیکھا گیا تھا کہ مرکز کے زیر انتظام عرصے کے دوران جموں کشمیر میں بے روزگاری پر قابو پانے میں مدد ملی تھی ۔ جب بھی یہاں گورنر یا صدر راج نافذ کیا گیا تو سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے کی طرف توجہ دی گئی ۔ لیکن اب ایسا کچھ نظر نہیں آرہاہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ کئی ہزار افراد کو سرکاری نوکریاں فراہم کی گئیں ۔ اس کے باوجود یہ بات اپنی جگہ قائم ہے کہ پورے ملک میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ جموں کشمیر میں پائی جاتی ہے ۔ حکومت کی طرف سے کئی طرح کے منصوبے سامنے آئے ۔ بنیادی ڈھانچہ کو فروغ دینے کے لئے اقدامات کئے گئے ۔ اس کے باوجود یہ بات اپنی جگہ قائم ہے کہ خطے میں رشوت ستانی پر قابو پایا گیا نہ لوگوں کے معاشی حالات بہتر بنائے جاسکے ۔ سرکاری اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ لوگوں کی معاشی حالت میں بہتری آنے کے بجائے اس میں بہت حد تک کمی آگئی ہے ۔ یہ بات اطمینان کی باعث ہے کہ سیاحتی سرگرمیاں کافی حد تک بحال ہوئی ہیں ۔ اس کے علاوہ روزمرہ سرگرمیاں بغیر کسی خلل کے جاری ہیں ۔ تاہم لوگ جن سہولیات کی امید کرتے تھے وہ سہولیات تاحال فراہم نہیں کی جاسکیں ۔ صحت ، تعلیم ، بجلی اور خاص کر روزگار کے حوالے سے عام شہری عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں ۔ پہلے سمارٹ بجلی میٹر نصب کرنے پر صارفین تحفظات کا اظہار کرتے رہے ۔ اب پراپرٹی ٹیکس کے نٖفاذ پر لوگوں میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ضوابط ملک کے ہر حصے میں نافذ ہیں ۔ جموں کشمیر کو ان سے چھوٹ نہیں دی جاسکتی ہے ۔ لیکن لوگ یہ دلیل ماننے کے لئے تیار نہیں ۔ عام شہری یہی سمجھتے ہیں کہ ان کی مالی حالت بہتر بنانے کے بجائے ان سے مالی وسائل چھین لئے جاتے ہیں ۔ عوام کا کوئی بھی طبقہ حکومتی اقدامات کو حق بجانب نہیں سمجھتا ۔ بلکہ اس پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ اس درمیان رواں مالی سال کا بجٹ سامنے آیا ۔ دوسرے بہت سے مسائل میں الجھے ہونے کی وجہ سے بجٹ کی طرف کسی کا ذہن نہیں گیا ۔ سوشل میڈیا پر اس کا زیادہ چرچا نہیں رہا ۔ کئی نیوز ایجنسیوں نے ضرور اس کا خاکہ اور بنیادی ڈھانچہ منظر عام پر لایا ۔ تاہم لوگوں نے اپنے کوئی آرا پیش نہیں کئے ۔ لوگوں کو اس بات سے زیادہ دلچسپی نہیں کہ بجٹ سے ان کی زندگی پر کیا اثرات پڑنے والے ہیں ۔ امید کی جارہی ہے کہ بہت جلد اس حوالے سے لوگوں اور دوسرے سماجی و سیاسی حلقوں کا ردعمل سامنے آئے گا ۔ کئی حلقے امید کررہے ہیں کہ نیا بجٹ نئی اور خوش حال زندگی گزارنے کا باعث بنے گی ۔
