تحریر:فاروق بانڈے
ماہ صیام کے ساتھ ہی کشمیر میںکچھ ایسے واقعات دیکھنے کوملتے ہیں جن کے بارے میں کوئی بھی ذی ہوش شخص کوئی وضاحت نہیں کر سکتا۔ایک گاؤں شہر میں بھکاریوں کی بھیڑ اور دوسرا ہے کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ۔ آج ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعدجب میں مقامی مسجد سے باہر آیا تو دیکھا کہ چند چھوٹے بچے، چند جواں عورتیں اور ایک اڈھیر عمر کا لنگڑا شخص بھیک مانگ رہے تھے۔ ان کی ایک خاص پہچان یہ تھی کہ ان میں سے مقامی کوئی نہیںتھا بلکہ سبھی دوسری ریاستوں سے اس مقدس مہینے میں بھیک مانگنے کے لئے یہاں آئے تھے یا ان کو لایا گیا تھا۔ لنگڑے بھکاری کے بارے میں تو مجھے یاد آیا کہ گزشتہ برس بھی وہ اس مہینے میں کبھی کبھی مقامی مسجد کے باہر بھیک مانگتا تھا۔ان بھکاریوں کا ماہ صیام میں ہر جگہ جھمٹ لگانا سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس مہینے میں ان کی آمدن کشمیر میں بڑھ جاتی ہے۔اس میں جوسب سے توجہ طلب معاملہ ہے وہ ہے چھوٹے بچے اور لولے لنگڑے بھکاریوں کی آمد۔حکومت کی طرف سے کئی دفعہ اقدامات اٹھائے گئے تھے اور ان بھکاریوں کو گرفتار بھی کیا گیا تھا مگر ہر ایک مہم کی طرح وہ مہم بھی زیادہ دیر زمیںپر ٹک نہ سکی یاشاید ’بھکاری مافیا ‘ نے کسی اثر رسوخ کا استعمال کرکے اس کوناکام بنایا ۔گزشتہ دنوں ہی اخبار میں یہ خبر آئی تھی کہ کشمیر میں مزدوروں کی دھاڑی سب سے زیادہ ہے۔ بھکاریوں کی کشمیر آمد سے یہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی آمدن بھی ملک کے باقی حصوں کے مقابلے یہاں پر سب سے زیادہ ہوتی ہے اور خاص کر ماہِ صیام میں۔ کہیں بچوں کی چوری کے پیچھے بھی ’ بھکاری مافیا ‘ ہی کام تو نہیں کر رہا ہے۔ اس بات کا خلاصہ تبھی ہوتا جب حکومت اس مافیا کا کریک ڈاؤن کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کرتی ۔ فرصت کے لمحات میں حکومت کو اس طرف اپنی توجہ مبذول کرنی چایئے۔
دوسرا ہے اشیاء اور خاصکر کھانے پینے کی اشیا ء کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ۔ ماہِ صیام کیاابھی بس تھوڑے ہی دن گزر گئے ہیں لیکن خود و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ متعلقہ محکمہ کچھ کرے اور متعلقہ محکمہ کہتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی صارف آکر شکایت کرے تو ہم کاروائی کریں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ محکمے کے کارکن کسی دوسری دنیا کے باشی ہیں کہ انہیں اپنے موجودہ رہائشی علاقے کے بارے میں کچھ خبر نہیں، یا انہیں دکاندار کوئی خصوصی رعایت دیتے ہیں خریداری کے وقت۔ جموںسرینگر شاہراہ کبھی کبھی بند تو ہوتی ہے مگر سرکار کی طرف سے فوری کاروائی کر کے اس شاہراہ کو کھول دیا جاتا ہے۔اس طرح یہاں کے کاروباری حلقے کو شاہراہ بند ہونے اور اشیاء کی کمی کا کوئی بہانہ نہیں ،تاہم قیمتیں ہیں کہ بڑھتی ہی جارہی ہیں۔سبزی فروشوں ،پھل،فروٹ بیچنے والوں، قصابو ں،مرغ فروشوں کی لوٹ کھسوٹ عروج پر ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وادی کے اطراف واکناف میں مہنگائی کاجن بوتل سے باہر آیا ہے۔ ویسے بھی کشمیرکی ہمیشہ روایت رہی ہے کہ یہاں خاص اور متبرک ایام کے موقعوں پر رام نام کی لوٹ شروع کی جاتی ہے۔ ملبوسات ہویاکھانے پینے کی اشیاء ان ایام میں قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کیاجاتاہے اور تاجر برادری اپنی تجوریوں کوبھرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہے ۔ جب سے رمضان المبارک کے متبرک مقدس ایام سا ئے فگن ہوئے اور اس کے ساتھ ہی کشمیر کے طول ارض میں ناجائز منافہ خوری کاسلسلہ شروع ہوا ہے کسی بھی اشیاء کانرخ ایسا نہیں ہے جس میں اضافہ نہ کیاگیاہو۔پچھلے دوماہ سے نہ توسپلائی چین ٹوٹی ہے اور نہ ہی متواتر جموں سرینگر شاہراہ بند رہی ہوکہ کئی اشیائی خوردنی سبزیوں کی اشیاء کی کمی تو نہیں ہوئی ہے ۔ مقدس ایام شرع ہونے کے ساتھ ہی اگرکشمیر وادی میں مہنگائی کاجن بوتل سے باہر آ گیاہے تو یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ یہ یہاں کی روایت رہی ہے ۔ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ان ایام میںلوگوں کا خون چوسنے میں کوئی کسر باقی نہ رہ پائے ۔سبزیوں کے ساتھ ساتھ دودھ دہی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیاہے نان وائیوں نے روٹیوں کاوزن کم کردیاہے، یا پھر پانچ روپیہ کے بجائے دس روپیہ کی روٹی گاہک کو خریدنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ سبزی اور پھلوں کی قیمت غریب عوام کی قوتِ خرید سے باہر ہو رہی ہے۔ سبزی فروش اور پھل فروٹ بیچنے والے ہردن نرخ میں اضافہ کرتے ہے اور عوام کی کمرٹیڑھا کرنے میں اپناہاتھ بٹا رہے ہے ۔ماضی میں متبرک اور مقدس ایام کے دوران چکنگ اسکارڈ بازاروںکامعائنہ کیاکرتے تھے زائدالمیعاد اورملاوٹ دار اشیاء کامعائنہ کیاجاتا تھا عوام کی زندگیوں کاخیال رکھاجاتا تھا انفور س منٹ ونگ مختلف ٹیموں کی شکلوں میں شہروں قصبوں اور دیہی علاقوں میں پھیل جاتی تھی اور قیمتوں کواعتدال پررکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اب سب کچھ ڈیجٹل ہورہا ہے ڈیجٹل کشمیر میں اب چکنگ اسکارڈ انفورس منٹ ونگ کو بھی ڈیجٹل ہی ہونا چاہئے تھا تاکہ وہ ا پنے دفتروں میں بیٹھ کر ہی بازار پر نظر رکھتے ۔ کوٹھداروں و قصابوںکے سامنے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ امور صارفین کامحکمے نے بھی ہار مان لی ہے۔ وادی کے کسی بھی علاقے میں مقررہ قیمت پر گوشت فروخت نہیں ہورہاہے اور متعلقہ ادارہ نرخ مقرر کرنے اور اس سے زمینی سطح پرلاگو کرنے میں برُی طرح سے ناکام ثابت ہوا ہے۔ اداروں کے سربرہا ن اپنی کاکردگی کی صرف تشہر کسی سوشل میڈیاچینل کے ساتھ گفتگو میںعوام کوبہترسہولیات فراہم کرنے کے دعوے کررہے ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ مرغ فروشوں، قصابوں، کریانہ فروشوں اور دیگر کاروبارکرنے والوں جن میں ریڈی میڈگارمنٹس ، بوٹ فروش ،پھل فروخت کرنے وا لے ہے نے متبرک ایام میںلوگوںکودوہاتھوں لوٹنے کی راہ پہلے ہی ہموارکررکھی ہے ۔