
نئی دہلی میں حالیہ شنگھائی تعاون کونسل (SCO) کے وزرائے دفاع کے اجلاس کے فوراً بعد، ہندوستان نے گزشتہ ہفتے گوا میں SCO کے وزرائے خارجہ کی میزبانی کی۔ ان دونوں سربراہی اجلاسوں کے درمیان مشترکہ پہلو ہندوستان کا اپنے دو ہمسایہ ممالک پاکستان اور چین کے خلاف سخت موقف اپنانا تھا۔
گوا میٹنگ میں، ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے انکشاف کیا کہ ہندوستان نے دو بار سربراہی اجلاس میں چین اور پاکستان کو ان کے کنیکٹیویٹی پراجیکٹس کے ذریعے ہندوستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرنے پر سرزنش کی۔ یہ بیان چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) سے متعلق ایک سوال کے جواب میں دیا گیا، جو اس وقت پاکستان کے غیر قانونی قبضے میں ہندوستانی علاقے سے گزرتا ہے۔اس سے قبل بھارت نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) پر تعطل کا شکار ہونے والی بات چیت کے معاملے پر نئی دہلی میٹنگ میں چینی وزیر دفاع کی سرزنش کی تھی۔
بھارت کی پاکستان پر تنقید
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری SCO-CFM میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے گوا میں تھے۔ یہ دورہ 12 سال کے وقفے کے بعد رونما ہوا تھا۔ ہندوستان کا دورہ کرنے والی آخری پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر تھیں، جب انہوں نے 2011 میں دہلی میں اپنے ہندوستانی ہم منصب ایس ایم کرشنا سے ملاقات کی تھی۔
تاہم، اس بار گوا میں جس چیز نے ماحول کو خراب کیا، وہ زرداری کی طرف سے کشمیر اور پاکستان کے خود دہشت گردی کا شکار ہونے کے حوالے سے دیا گیا بیان تھا۔ اگرچہ انہوں نے تعطل کا شکار مذاکرات کو بحال کرنے پر بھی زور دیا۔
ہندوستان نے بات چیت کے لیے پاکستان کی کوششوں پر سخت الفاظ میں ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے متاثرین دہشت گردی کے مرتکب افراد کے ساتھ مل کر دہشت گردی پر مذاکرات نہیں کرسکتے۔
زرداری کی طرف سے دییبیان کے ہرنکتے کو مسترد کرتے ہوئے، وزیر خارجہ ای اے ایم ایس جے شنکر نے کہا کہ وہ (زرداری) "دہشت گردی کی صنعت کے فروغ دینے والے،اس کی حمایت میں جواز فراہم کرنے والے اوردہشت گردی کے ترجمان کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ دراصل جمعہ کو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب ایک دہشت گردانہ حملے میں ہندوستانی فوج کے پانچ جوانوں کی ہلاکت کی خبر کے بعد سخت ہندوستانی ردعمل سامنے آیا ہے، جس کے نتیجے میں بھارت نے گوا اجلاس میں اپنی تکلیف کا اظہار کیا ہے۔ جے شنکر نے کہا کہ بلاول کی ایک ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کی تجویز’’منافقانہ‘‘ تھی اور کہا کہ ہندوستان اس واقعے کے بعد ’’غصے کا احساس کر رہا ہے۔‘‘
چین پر ہندوستان کا موقف
جئے شنکر کا چین کے بارے میں بھی ایسا ہی موقف تھاکیونکہ چینی وزیر خارجہ نے دو طرفہ بات چیت میں سرحد پر صورتحال کو مستحکم قرار دیا تھا۔ جس کے جواب میں جے شنکر نے کہا کہ سرحدی علاقوں میں غیر معمولی صورتحال قائم ہے۔ ہمیں فوجوں کو واپس بلانے کے عمل کو آگے بڑھانا چاہیے۔ میں نے اسے بہت واضح کر دیا ہے۔ سرحدی علاقوں میں امن و سکون خراب ہونے سے ہندوستان اور چین کے تعلقات معمول پر نہیں آئیں گے۔ یہ پیغام انہی خطوط پر تھا جو اب سے پندرہ دن قبل ہندوستانی وزیر دفاع نے اپنے چینی ہم منصب کو دیا تھا۔
زرداری کے بیانات کا جواب دیتے ہوئے، جے شنکر نے کہا کہ کشمیر میں منعقد ہونے والے G-20 اجلاس کی بلاول کی مخالفت کی کوئی بنیاد نہیں ہے کیونکہ پاکستان اس گروپ کا رکن بھی نہیں ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس میں بلاول کے افتتاحی خطاب پر جہاں انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے معاملے کو سفارتی پوائنٹس اسکور کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے، جئے شنکر نے کہا:’’ہم سفارتی پوائنٹ اسکور نہیں کر نا چاہتے ہیں اور نہ ہی ایسا کررہے ہیں بلکہ ہم پاکستان کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کا شکار ہونے کے ناطے، ہم ایسا کرنے کے مجاز ہیں۔ ہم نے اسے اب تک برداشت کیا ہے لیکن اب حد ہوگئی ہے۔ یہ رویہ اس ملک کی ذہنیت کے بارے میں بہت کچھ بولتا ہے۔‘‘
انہوں نے پاکستان سے کہا کہ ’’وہ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کے طور پر آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بارے میں کوئی شکایت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ 370 اب تاریخ بن چکا ہے۔ جتنی جلدی لوگ اس کا ادراک کریں، اتنا ہی بہتر ہے۔‘‘
سی پیک پر بھارتی ردعمل
وزیر خارجہ جے شنکر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تذکرے پر بھی ایک استثنیٰ لیا، پاکستان اور چین دونوں کو نشانہ بناتے ہوئے۔ اور بجا طور پر،کیونکہ شنگھائی تعاون تنظیم ایک کثیر جہتی فورم ہے، دو طرفہ نہیں اور ماضی میں بھی بھارت کا CPEC پر مخالفانہ موقف بالک واضح رہا ہے، کیونکہ اس کا ایک بڑا حصہ PoK سے گزرتا ہے۔ ساتھ ہی بھارت نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو-BRI اور CPEC کی مسلسل مخالفت کی ہے، کیونکہ یہ منصوبے بھارت کی علاقائی سا لمیت اور خودمختاری کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
جے شنکر نے بہت واضح طور پر کہا کہ کنیکٹیویٹی، ترقی کے لیے اچھی ہے، لیکن کنیکٹیویٹی ملکوں کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی نہیں کر سکتی۔
بلاول کا رد عمل
اپنی طرف سے بلاول بھٹو زرداری نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ’’منجمد امن‘‘ کا ذمہ دار ہندوستان کی کشمیر پالیسی کو قرار دیا۔ اگست 2019 میں ہندوستان کی طرف سے جموں و کشمیر سے خصوصی اختیارات واپس لینے اور ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے اعلان کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں نمایاں کمی آئی۔
ہندوستان نے ہمیشہ اس بات کو برقرار رکھا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مستقل اچھے ہمسایہ تعلقات کا خواہاں ہے جبکہ اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اس طرح کی دو طرفہ بات چیت کے لیے ایک محفوظ ماحول قائم کرنے کی ذمہ داری اسلام آباد پر ہے۔
پاکستان اور چین دونوں کے لیے سخت بھارتی ردِعمل، بنیادی طور پر اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اس کیمسلسل جدوجہد سے پیدا ہوا ہے، جو بہتر تعلقات کے لیے متعدد بھارتی اقدامات کے باوجودمتنازعہ مسائل پر اپنے پرانے موقف سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی بھی بھارتی کوشش کا مثبت جواب دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس نے ایک بار پھر ظاہر کردیا ہے کہ جغرافیائی سیاست اور سفارت کاری میں باڈی لینگویج بہت زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔یہ اس وقت بھی ظاہر ہوا جب ہندوستانی اور پاکستانی وزرائے خارجہ کے درمیان فوٹو کھنچواتے وقت فاصلہ نمایاں طور پرنظر آ رہا تھا۔ تاہم، بھارتی سرد رویہ اور پاکستانی ہٹ دھرمی دراصل متعلقہ گھریلو سامعین کے لیے اپنایا گیا تھا۔ بھارت کی حکمراں جماعت کرناٹک کے آئندہ انتخابات کے پیش نظر ہندوستانی قیادت کے سخت رویے کا اظہار کرتے دکھائی دینا چاہتی تھی۔ جب کہ پاکستانی وزیر پاکستان کی معاشی پریشانیوں کے پس منظر میں پرانے مسائل کو اٹھانے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن مجموعی طور پر یہ انداز مستقبل قریب میں پڑوسیوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے لیے اچھا مظہر نہیں ہے اور اس طریقے کی نوک جھونک سے تعلقات بہتر ہونے کے بجائے اور زیادہ خراب ہی ہوں گے۔