
تحریر:سہیل بشیر کارآج کل کسان حضرات دھان کی کاشتکاری میں مصروف ہیں. دنیا کے پچاس فیصد لوگوں کا کھانا چاول ہی ہوتا ہے. چاول ‘اوریزا سٹایوا’ نامی پودے کا ایک دالیہ بیج ہے؛ جو گھاس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ توانائی کا بڑا ذریعہ ہے اور عالم انسانی میں وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والی غذا ہے، خاص طور پر مشرقی، جنوبی، جنوب مغربی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مکئی کے بعد دنیا میں دوسری عظیم پیداواری فصل کی حیثیت رکھتا ہے۔چونکہ مکئی کی پیداوار انسانی استعمال کی بجائے کئی دوسرے مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہےاس لیے ایک اندازے کے مطابق چاول انسانی خوراک کی ضروریات اور توانائی کے حصول میں سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ انسان اپنی تمام تر توانائی کی ضروریات کا پانچواں حصہ چاول سے پورا کرتے ہیں۔کشمیر کے لوگوں کی بنیادی غذا چاول ہی ہے لہذا دھان سب سے اہم پیداواری فصل ہے .کشمیر میں دھان قریباً ایک لاکھ ہیکٹر زمین پر لگایا جاتا ہے۔دھان موسم خریف کی اہم فصل ہے جو نہ صرف ہماری غذائی ضروریات پورا کرتی ہے بلکہ اس کی برآمد سے قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ دھان کے باقیات کئی صنعتوں کیلئے خام مال مہیا کرتے ہیں مثلاً اس کا چھلکا کاغذ اور گتہ سازی کی فیکٹری میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ بات دیکھنے کو مل رہی ہے کہ جس طرح کی محنت کاشتکار دھان کے لیے کرتے ہیں اس طرح کا منافع ان کو نہیں ملتا، حالانکہ اللہ رب العزت نے کشمیر کی سرزمین کو بہت ہی زرخیز بنایا ہے، یہاں جو دھان اگائی جاتی ہے وہ دوسرے علاقوں کے دھان سے ذائقہ میں بہتر ہوتی ہے، دھان کے بارے میں جو غلطی عام طور پر کسان کرتے ہیں وہ صحیح بیج کا انتخاب نہ کرنا ہے. ماہرین زراعت نے موزوں تحقیق کی بنیاد پر الگ الگ علاقوں کے لئے الگ الگ قسم کے دھان کی سفارش کی ہے. ہموار اور میدانی علاقوں کے لیے SR1, SR2, SR3, SR4 بہتر رہتا ہے. چونکہ بیشتر علاقوں میں ابھی بھی ٹرانسپلانٹنگ نہیں ہوئی ہے؛ کاشتکاروں کو چاہیے کہ وہ پنیری ان لوگوں سے لے لے جنہوں نے محکمہ زراعت سے دھان لیا ہے، ویسے بھی یہاں کاشتکار حضرات ایک کنال کے لیے 5 کلو کا بیج استعمال کرتے ہیں حالانکہ ایک کنال کے لیے 3 کلو کا بیچ کافی ہوتا ہے،اگر آپ 20 کنال میں دھان لگاتے ہیں تو آپ 1 کنال میں بیچ ڈالیے؛ پھر 25 سے 35 دنوں بعد پنیری کو ٹرانسپلانٹ کیجئے. دھان کے بیچ کو seed treatment ضرور کیجئے. کشمیر میں بہتر ہے کہ دھان کا بیج اپریل کے تیسرے ہفتے میں بوئیں. جو دھان مئی کے آخری ہفتے تک ٹرانسپلانٹ کی جاتی ہے اس کی پیدوار زیادہ ہوتی ہے البتہ 21 جون تک بھی ٹرانسپلانٹ کیا جاسکتا ہے. پنیری میں ایک ساتھ 3 سے زیادہ پلانٹ نہ لگائیں. اگر کاشتکار صرف ایک، دو، یا تین پلانٹ ہی لگائیں گے تو زمین زیادہ پیدوار دے گی۔ بدقسمتی سے کسان حضرات دس دس پودے لگاتے ہیں، بہتر ہے پودے قطار میں لگائے جائیں. پودے اور پودے کے درمیان 15*15 سینٹی میٹر کا فاصلہ رکھیں۔راقم نے دلنہ بارہمولہ میں SR؛ Varaities کا استعمال کیا تو ان کی پیدوار 3 کوئنٹل سے بڑھ کر 6 کوئنٹل ہو گئی، اسی طرح وہ علاقے جو ٹھنڈے علاقے ہیں اور جہاں کا پانی بھی ٹھنڈا ہے ان علاقوں کے کاشتکاروں کو چاہیے لال چاول، زگ یا مشک بدجی کی کاشتکاری کریں۔ مشک بدجی /17000 میں ایک کوئنٹل مارکیٹ میں بکتا ہے. ہم نے کچھو مقام میں مشک بدجی لگایا تو زمیندار کو نہ صرف اچھی پیدوار ملی بلکہ 17000 روپے کے حساب سے ان کا چاول بھی بک جاتا ہے ۔مشک بدجی اور زگ کشمیر کی مقامی قسم ہے محکمہ زراعت نے ان نیٹو اقسام کو اگانے کے لیے منظم کوشش کی ہے۔مشک بدجی اور زگ کی کاشت میں یہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں اس میں بلاسٹ بیماری نہ لگے لہذا بروقت مینجمنٹ کی ضرورت ہے۔محکمہ زراعت نے کشمیر میں باسمتی کو اگانے کی بھی کوشش کی ہے، جس کے خاطر خواہ نتائج ملے ہیں، البتہ اس کی پسائی(milling) صرف مخصوص جگہوں پر ہوتی ہے لہذا یہ کوشش بڑے پیمانے پر نہ ہو سکی، ایس آر قسم جہاں بیماری مزاحم (disease resistant) ہے؛ وہیں ہوا مزاحم (wind resistant) بھی ہے. ایک غلط فہمی لوگوں میں پھیلائی گئ ہے کہ یہ دھان جھاڑی ( threshing) کے لیے سخت ہے حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
کاشتکار کے لیے ضروری ہے کہ وہ کاشتکاری کے لیے ماڈرن ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھایے۔ محکمہ ایگریکلچر کی طرف سے جاری کردہ ہدایات سے استفادہ کریں۔
پنیری ٹرانسپلانٹنگ کرنے سے پہلے زمین اچھی طرح سے تیار کیجئے. puddling اچھی طرح سے کیجئے، کم از کم 3 سے چار بار کھیت کو جوتیے. ٹرانسپلانٹنگ کرنے سے پہلے کینچوا کھاد اورFYM کا خوب استعمال کیجئے، کیمیائی کھاد یوریا 4 کلو؛ ڈی اے پی6. 5 کلو اور پوٹاش(MOP) 2.5کلو. ایک کنال میں basal dose دیجئے یعنی ٹرانسپلانٹنگ کرنے سے پہلے. واضح رہے کہ ڈی اے پی اور پوٹاش basal ڈوز میں استعمال کی جائے گی اس کے برعکس یوریا تین الگ الگ موقعوں پر استعمال کی جائے گی. 1۔لگانے سے پہلے4 کلو، دوسرا ڈورز یوریا کا 3.25 کلو tillering stage پر اور آخری ڈوز 3.25 کلو ایک کنال کے حساب سے panicle stage پر دیجئے. عام طور پر کاشتکار حضرات DAP اور پوٹاش کا استعمال نہیں کرتے اس کے برعکس یوریا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں جس سے نباتاتی بالیدگی (vegetative Growth) تو ہوتی ہے لیکن پیدوار کم ہوتی ہے. بہتر طریقہ یہ ہے کہ فصل کا بیج لگانے سے پہلے مٹی کی جانچ کی جائے اور ان ہی سفارشات کے مطابق کیمیائی کھاد کا استعمال کیا جائے۔کشمیر کی دھان کی زمینوں میں دیکھا گیا ہے کہ ان میں زنک(zinc) کی کمی رہتی ہے لہذا آدھے کلو سے ایک کلو زنگ ایک کنال میں بیسل ڈوز دیجئے،اس سے آپ کی کراپ نہایت ہی معیاری ہو جائے گی. عام طور پر 25 سے 35 دن دھان کا بیج ڈالنے کے دنوں بعد ٹرانسپلانٹنگ کی جا سکتی ہے. 35 دنوں سے زیادہ پنیری کو استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔دھان کے لیے ضروری ہے کہ کھیتوں میں دوران فصل پانی دو انچ رکھی جائے. ٹرانسپلانٹنگ کےدو دن بعد BUTACHLOR یا کوئی اور دوائی دیجئے تاکہ گھاس پات کم اگے. اس سلسلے میں مارکیٹ میں بہت سی اچھی دوائیاں دستیاب ہیں. 15 سے 20 دنوں بعد ہاتھوں سے گھاس نکالیں. ٹرانسپلانٹنگ کے 35 دنوں بعد پورا پونی کھیت سے نکالیں، قریب ایک ہفتہ تک زمین کو ایسے ہی رہنے دیں ، پانی نکالنے کے ایک ہفتہ بعد پانی پھر سےبھر لیں،پھر جب ٹرانسپلانٹنگ کو 50 سے 55 دن ہو جائیں تو پانی ایک بار پھر سے نکالے اور 5 روز زمین پانی کے بغیر رکھیے. 65 دنوں یعنی flowing سے ملکنگ سٹیج تک کھیتوں میں پانی رکھیے لیکن سطح پتلی رہنی چاہیے، پنیری لگانے سے 85 سے 90 دنوں تک کھیت میں صرف دو اور زیادہ ضرورت میں صرف تین بار آبپاشی کریں. 100 دنوں کے بعد یعنی دھان پکنے کے بعد پانی روک دیجئے. دھان میں براون سپاٹ لگتا ہے اس کے لیے ٹرائیکونوزال 75 ڈبلیو پی 0.6 گرام شرح فی کلو بیچ میں ملا کر استعمال کریں، دھان کے لیے سب سے زیادہ خطرناک پیڈی بلاسٹ ہوتا ہے، جوں ہی اس کے اثرات دکھائی دیں فورا اپنے علاقے کے انچارج محکمہ سے رابطہ قائم کریں. بلاسٹ کا خطرہ اس وقت زیادہ بڑھ جاتا ہے جب موسم ابر آلود ہو، ابتدائی تشخیص سے اس بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے.
جب دھان تیار ہو تو فصل کو کاٹیے، اس کے چار دنوں بعد threshing کی جاسکتی ہے. threshing کے لیے محکمہ زراعت نے ہر پنچایت میں ایک thresher رکھا ہے. اس کے استعمال سے کم مزدور لگ جاتے ہیں دھوپ میں اچھی طرح دھان کو سکھائیں ۔کشمیر میں دھان یا چاول کی مارکیٹنگ کے لیے کوئی منظم طریقہ نہیں ہے. نتیجتاً کاشتکار محنت کرنے کے باوجود اچھی رقم وصول نہیں کرپاتے، اس سلسلے میں ایک مشورہ ہے کہ الگ الگ علاقوں کے کم از کم 100 کاشتکار مل جائیں اور ایک FPO قائم کریں اور اس کے تحت برانڈنگ، پیکنک اور مارکیٹنگ کریں تو بہت فائدہ ملے گا. 100 افراد کے FPO کے لیے حکومت 15 لاکھ کی رقم دیتی ہے. (FPO کی جانکاری کے لیے انشاء اللہ الگ سے مضمون لکھا جائے گا) الغرض آج کے دور میں سمارٹ ایگریکلچر کی ضرورت ہے تاکہ بہت اچھی آمدنی ہو۔