از:منظور الہٰی
وادی کشمیر جہاں ایک طرف سے قدرتی حسن سے مالا مال ہے اور دنیا بھر کے سیاح اس کی خوبصورتی کی وجہ سے یہاں آنے میں مجبور ہوجاتے ہیں وہیں یہاں کے مثالی فن پارے معرض وجود میں لانے کے عوض میں یہاں کے کاریگر بھی سرکاری و غیر سرکاری سطح پر اعلیٰ درجے کے اعزازات حاصل کر رہے ہیں اور کشمیر کا نام روشن کرنے میں پہل کر رہے ہیں غلام نبی ڈار، سرینگر کے ایک 72 سالہ ماہر کاریگر، جنہیں لکڑی کی تراش خراش میں ان کی شراکت کے لیے پدم شری ایوارڈ سے نوازا گیا ہے،چھ دہائیوں سے زائد عرصے تک اپنے فن کے لیے ان کی غیر متزلزل لگن نے انھیں بے شمار تعریفیں حاصل کیں، جس کا اختتام ملک کے 75ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر اعلان کردہ اس قومی شناخت پر ہوا۔ غلام نبی ڈار کا تعارف چھوٹی عمر میں ہی لکڑی کے نقش و نگار سے ہوا تھا۔ کاریگروں کی طرف سے ابتدائی طور پر مسترد کیے جانے کے باوجود جو تجارت سکھانے کے لیے تیار نہیں تھے،ان کی صلاحیتوں اس وقت پروان چڑھی جب وہ روایتی ڈیزائنوں سے ہٹ کر فطرت سے متاثر ہوکر اپنے منفرد کام تخلیق کرنے لگے۔ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف اس وقت ہوا جب انہیں 1984 میں ریاستی ایوارڈ ملا، اور بعد میں 1990 کی دہائی کے اوائل میں بغداد میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کی کاریگری اس وقت نئی بلندیوں پر پہنچی جب انہیں 1995-96 میں نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ سری نگر کے صفا کدل علاقے سے تعلق رکھنے والے عمر رسیدہ کاریگر غلام نبی ڈار کو امسال ووڈ کارونگ میں عدیم المثال فن پارے معرض وجود میں لانے کے اعزاز میں حکومت نے پدم شری کے اعلیٰ درجے کے ایوارڈ سے سر فراز کیا ہے۔موصوف کاریگر اخروٹ کی لکڑی پر دلکش و مسحور کن نقش و نگاری کرکے ایسے فن پارے وجود میں لاتا ہے کہ جنہیں دیکھ کر لوگ دنگ رہ جاتے ہیں۔کمسنی میں ہی ووڈ کارونگ کے فن کے وسیع و بسیط سمندر میں غوطہ زن ہونے سے لے کر نادر و نایاب جواہرات کے حصول تک انہیں کئی تلاطم خیز موجوں سے نبر د آزما ہونا پڑا۔چنانچہ غلام نبی ڈار کہتے ہیں: ‘میں زیادہ سے زیادہ دس برس کا تھا جب میں نے یہ فن سیکھنا شروع کیا لیکن اس کے ماہر کاریگر دستیاب نہیں تھے گرچہ ایک دو کاریگروں کے پاس میں نے زانوئے ادب تہہ کئے لیکن وہ اس دن کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف نہیں تھے’۔ ڈار صاحب نے کہا میں 10 سال کا تھا جب میرے والد کو اپنے کاروبار میں نقصان ہوا اور وہ ٹوٹ گئے۔ چونکہ وہ فیس ادا نہیں کر سکتے تھے، اس لیے مجھے سکول سے نکال دیا گیا۔ میرے ماموں نے مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو سرائے صفاکدل میں لکڑی کے نقش و نگار کے یونٹ میں لے گئے۔ کہ ہم ہنر سیکھ سکیں،” پرانے سرینگر شہر کے صفاکدل علاقے میں رہنے والے ڈار نے کہا۔ اگرچہ ماسٹر کاریگر کا کہنا تھا کہ اس نے لکڑی کے نقش و نگار کے یونٹ میں پانچ سالوں کے دوران زیادہ کچھ نہیں سیکھا، تاہم وہاں رہنے سے اس فن میں دلچسپی پیدا کردی اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی روزی کمانے کے لیے اسے سیکھیں گے۔ مجھے اس فن کو سیکھنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ میں کئی دستکاروں کے پاس گیا لیکن انہوں نے مجھے یہ کہہ کر دور کر دیا کہ میں نہیں سیکھ سکوں گا… لیکن میں نے عزم کیا اور سخت محنت کی۔ اور میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں ۔کہ جس ذات نے مجھے اس بلندی پر پہنچایا حکومت کی طرف سے حوصلہ افزائی ضرور ہوتی ہے میں شکر گذار ہوں میری کئی بار حوصلہ افزائی کی گئی’۔غلام نبی ڈار اس فن کو نئی نسل کو منتقل کرنے کے آرزو مند ہیں تاکہ یہ فن زندہ بھی رہ سکے اور بے روزگاروں کے لئے روزگار کا وسیلہ بھی بن سکے۔انہوں نے کہا: ‘ووڈ کاورنگ ایک وسیع فن ہے میں خود ابھی سیکھ ہی رہا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ نوجوان میرے پاس آئیں تاکہ میں اس فن کے اسرار و رموز سکھا سکوں جس سے ان کو روز گار بھی ملے گا اور یہ فن زندہ بھی رہے گا’۔انہیں اس بات پر شکوہ ہے کہ نئی نسل اس خوبصورت فن کی طرف متوجہ نہیں ہے اور شاید ہی کوئی نوجوان اس کو سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔