پاپا….. “آپ نے میرا دماغ خراب کر کے رکھ دیا ہے۔ طوطے کی طرح قربانی قربانی کی رٹ لگائے بیٹھے ہو۔ مان لیا ہم دونوں میاں بیوی کماتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہر سال قربانی کا فریضہ انجام دیں۔ بچوں کی فیس، گھر کے اخراجات، اوپر سے یہ مہنگائی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن آپ اپنی ضد پر اڑے ہیں۔”
بیٹا الیاس: “اپنے رب کا شکر ادا کرو۔ کم سے کم ایک لاکھ کی آمدنی ہے۔ اس عید پر ابھی تک کم سے کم بیس ہزار کی شاپنگ کر چکے ہو۔ پھر قربانی جیسے متبرک فریضہ کے لیے یہ حیلے بہانے کیوں؟”
پاپا۔۔ “آپ ماننے والے تھوڑی ہو۔ یہ لو بیس ہزار روپے اور قربانی کے لئے بازار سے جانور خرید کر لاؤ۔ ہم آفس جا رہے ہیں اور ہاں یہ دو سو روپیہ الگ سے کرایہ رکھ لو۔۔”
” اس مہینے اب ہاؤسنگ لون کی قسط نہیں بھر پائیں گے”۔۔ الیاس کی بیوی زیر لب بڑ بڑا رہی تھی۔
فقیر محمد نے بیس ہزار روپے اپنی جیب میں رکھ لیے اور بازار کی جانب مسکراتے ہوئے اور اپنے بیٹے کو دعائیں دیتے ہوئے روانہ ہوئے۔ فقیر محمد کافی ضعیف تھے۔ بازار پہنچ کر دو جوان لڑکوں کی مدد سے اس نے روڈ کراس کیا اور قربانی کے جانور کے تجسس میں محو ہو گیا۔ بازار میں ہر سو عید کی آمد کی چہل پہل تھی۔ جگہ جگہ پر قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت بڑی گہماگہمی سے جاری تھی۔ فقیر محمد جھلستی گرمی میں جگہ جگہ مناسب دام کے جانور دیکھ رہا تھا۔ اس نے ایک جگہ کافی بھیڑ بھاڑ دیکھی جہاں لوگ طرح طرح کی جانوروں کی خرید و فروخت میں مصروف تھے۔ فقیر محمد وہاں رکا اور ایک قدرے اچھے بھیڑ کو پسند کیا۔ جب اپنے ہاتھ اس بھیڑ کے اوپر پھیرے تو ایسے محسوس کیا جیسے ایک دیرینہ آرزو کا لمس روح میں اترا ہو اور غم زدہ اور زخمی روح کی مسیحائی کی ہو۔
“کیا قیمت ہے اس بھیڑ کی”؟
” چاچا بائیس ہزار روپے”
” میرے پاس صرف بیس ہزار ہی ہیں”
“کوئی بات نہیں چاچا۔۔ آپ کے لئے صرف بیس ہزار۔”
فقیر محمد نے جوں ہی جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب خالی دیکھ کر اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ کسی نے اس کے سارے پیسے اُڑا لیے ہیں۔وہ وحشت کے عالم میں چپ چاپ خشک آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
“چاچا کیا ہوا؟ پیسے دو اور اس بھیڑ کو لے جاؤ”
فقیر محمد کچھ بولنا چاہتا تھا۔ اس کے گلے سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ انہوں نے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔ “بیٹا میرے سارے پیسے چوری ہو گئے ہیں۔”
چاچا۔۔۔ “آپ جیسے بہت لوگوں سے دن میں ملاقات ہوتی ہے۔” اس نے اپنی آواز کو بلند کیا۔ “اگر تمہارے پاس پیسے نہیں ہیں پھر خواہ مخواہ میرا وقت کیوں برباد کر رہے ہو، یا بڑھاپے میں تمہارا دماغ سرک گیا ہے۔ دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔”
فقیر محمد لوگوں کے درمیان ذلیل ہوکر ٹوٹے دل کے ساتھ بازار سے نکل آیا۔
فقیر محمد کو بس ایک چیز کا ڈر تھا جو اس کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ وہ اپنے بیٹے اور بہو سے بہت ڈرتا تھا اور اب پیسے چوری ہو جانے کے بعد وہ کس منہ سے اپنے گھر جاتا؟ آخر بیٹے کو کیا جواب دوں گا؟ فقیر محمد بازار کے ایک کونے میں اسی سوچ میں ڈوبا رو رہا تھا۔ اس کے پاس گھر جانے تک کے پیسے نہیں تھے۔ اس کی حالت بالکل ہی متغیر تھی۔
اسی اضطرابی حالت میں فقیر محمد روڈ کراس کر رہا تھا کہ اچانک ایک برق رفتار گاڑی نے فقیر محمد کو ایک زور دار ٹکر ماری۔ فقیر محمد کا ڈر اب ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکا تھا۔ مگر روح قربانی کے بھیڑ کے عجیب لمس میں لپٹی ہوئی موت سے شکست کھاکر محوِ پرواز تھی۔
الیاس اور اس کی بیوی سہمی ہوئی حالت میں گاڑی سے نیچے اتر گئے۔ ان کی گاڑی نے کسی کی جان لی تھی۔ الیاس نے خون میں لت پت ضعیف آدمی کو پہچان لیا۔ وہ اس کا باپ فقیرمحمد تھا جو اب مر چکا تھا۔ الیاس کی بیوی لاش کے ارد گرد قربانی کا جانور تلاش کر رہی ہے اور جانور نہ ملنے پر فقیر محمد کی لاش کی تلاشی لی۔ فقیر محمد کی جیب میں ایک بھی پیسہ نہ پاکر سر پیٹنے لگی۔
“ہائے۔۔۔۔۔ہمارے پاپا۔۔۔۔آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر چلے گئے۔۔”