
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب نعیم سے میری شناسائی ہوئی۔چھے ماہ قبل میں نعیم کو نہیں جانتا تھا اور ظاہر ہے وہ بھی مجھے نہ جانتے اور نہ ہی پہچانتے تھے لیکن اب جب بھی پاکستان کے فنکاروں کا ذکر ہوتا ہے مجھے یاد صاحب کی یاد آتی ہے۔ایک اچھے اور سچے فنکار،بہت ہی نیک اور شریف النفس انسان نعیم یاد سے تو ملاقات دور کی بات ہے کبھی بات بھی نہیں ہوئی صرف ان کی فنکاری کے نمونے ہیں جہنوں نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔بات مارچ 2023 ء کی ہے، بارشوں کا موسم تھا فضائیں معطر تھیں اور میرا دل اس خبر سے منور تھا کہ میری تیسری کتاب کوتاہیاں منظر عام پر آنے والی ہے۔میں اسی خوشی میں مست کتاب میں شامل انشائیوں کا ذکر اپنے دوستوں سے کررہا تھا اور کبھی کوئی انشائیہ کسی دوست کو سنا کر داد پاتا تھا کہ پبلشر نے مجھ سے رابطہ کیا کہ کتاب کا سرورق بنانا ہے،خود بناؤ گے یا میں کسی کی خدمات حاصل کروں۔؟میں نکما انسان سوائے دال چاول کے مجھے کچھ بنانا نہیں آتا البتہ خود غرض اشخاص کبھی کبھی مجھے بے وقوف ضرور بناتے ہیں۔پبلشر نے سرورق کسی سے بنوایا جو مجھے پسند نہ آیا۔چند روز بعد ڈاکٹر رمیشا قمر کی مرتب کردہ کتاب اردو کی تیرہ نئی مقبول کہانیاں موصول ہوئی۔اس کا سرورق نعیم یاد نے بہت خوبصورت بنایا تھا۔مجھے سرورق اچھا لگا اور میں نے بھی نعیم یاد سے رابطہ کیا۔چونکہ میری ایک دو تحریریں طلوع ادب انٹرنیشنل میں چھپ چکی تھی اس وجہ سے نعیم یاد سے غائبانہ تعارف تھا۔نعیم صاحب سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کیا ۔سلام علیک کے بعد یہ گزارش کی کہ میری کتاب کا سرورق بنا کر دیجیے۔اس کی لیاقت کا اندازہ کر لیجیے کہ کشمیر سے ایک انجان شخص اس سے مخاطب ہورہا ہے اور جان نہ پہچان یہ فرمائش کررہا ہے کہ سرورق بنا دیجیے۔آج کل بنا مطلب کوئی جان پہچان والا بھی کسی کے کام نہیں آتا ،نعیم نے بغیر معاوضے اور غرض کے سرورق بنانے کی حامی بھر لی۔اس کی باتیں، ردعمل اور لہجے کی نرمی دیکھ کر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کے ماتھے پر شکن نہیں آئی ہوگی ایسا مجھے یقین ہے۔ ان کا مطالبہ بس اتنا تھا کہ اگر آپ کو جلدی نہیں ہے تو میں چند روز بعد بناکے دوں گا۔ وقت کا گھوڑا بہت تیز دوڑتا ہے اور یہ چند روز چند ساعتوں کی طرح گزر گئے اور ان کا مسیج آیا کہ سرورق ہوگیا ہے۔یک بعد دیگرے انہوں نے کوتاہیاں کے لئے تین سرورق تیار کئے اور مجھے اختیار دیا کہ جو ان میں سے پسند آئے منتخب کر لو۔میں شرمندہ تھا کہ ایک فنکار اپنی مصروفیات کو ترک کرکے میرا کام کررہا ہے اور بدلے میں، میں اسے کچھ نہیں دے پارہا ہوں۔میں اسے کچھ دے بھی نہیں سکتا تھا سوائے دعاؤں کے اور صبح شام ،دوپہر ، سہ پہر جب بھی یاد ،یاد آتے ہیں میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں۔کوتاہیاں چھپ کر آگئی اور سرورق کی خوب تعریفیں ہوئیں۔اس سرورق کی بدولت نعیم یاد سے میرا تعارف ہوا اور جان پہچان بھی۔یہ راز بھی آشکار ہوا کہ نعیم یاد بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ایک افسانہ نگار ، شاعر، خطاط اور مدیر ہیں۔
پچھلے دنوں وادی کے معروف اور شہرت یافتہ بزرگ افسانہ نگار نور شاہ نے مجھے حکم دیا کہ میری تازہ تصنیف ” میرے لہو کی کہانی” شائع ہونے والی ہے اس کتاب پر کچھ لکھو ۔میں نے چند روز کے بعد اس کتاب کے حوالے سے مختصر سی تحریر رقم کی جس میں ان کے افسانوں کو کہانی کی شکل دی اور اس کتاب کے شائع ہونے پر مسرت کا اظہار کیا۔کچھ دنوں بعد شاہ صاحب کا ایک اور حکم آیا کہ اس کتاب کا سرورق تیار کراؤ۔میرے ذہن میں فورا نعیم یاد کا نام آیا لیکن وسوسوں کا بھی شکار تھا کہ شاید انکار کردے۔ہمت کرکے میں نے نعیم صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کم سے کم ایک ہفتے کا وقت مانگا کہ رسالے کا کام بھی ہے اور اپنے خیالات بھی حوالہ قرطاس کے منتظر ہیں۔ابھی چار دن ہی گزرے کہ میں پھر سے یہ درخواست لے کر نعیم کی خدمت میں حاضر ہوا کہ حضور کچھ فراغت ہو تو کتاب کا سرورق بنا دیجیے۔جواب آیا کہ کوئی آئیڈیا دیجیے کل تک ان شاء اللہ سرورق تیار ہوجائے گا۔اگلی صبح جب فون ہاتھ میں لیا تو خوبصورت سرورق کے دیدار ہوئے جو نہ صرف مجھے پسند آیا بلکہ نور شاہ صاحب کی آنکھوں کو بھی بھایا۔یہ سرورق بنا کر نعیم نے میری عزت رکھ لی اور میرے دل میں ہمیشہ کے لئے ایک محل تعمیر کیا۔اس محل کے پاس ایک بڑا باغ ہے جس میں عزت و احترام کے درخت لگے ہیں۔
زندگی میں کم ایسے لوگ ملتے ہیں جو بے غرض اور دل کے اچھے ہوتے ہیں۔جن سے ملاقات اور بات چیت نہ بھی ہو پھر بھی وہ دل کے قریب ہوتے ہیں۔میں اس حوالے سے خود کو خوش نصیب تصور کرتا ہوں کہ نعیم یاد جیسا دوست ( میں نعیم کو اپنا دوست مانتا ہوں ان کے دل کا حال خدا جانے۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ دوست بھائی سے بڑھ کر ہوتا ہے۔بھائی سے جو راز چھپائے جاتے ہیں ایک دوست ان سے واقف ہوتا ہے۔) مجھے ملا جو اللہ رب العزت کا مجھ پر خاص کرم ہے۔میری دعا ہے کہ رب انہیں خوش رکھے اور تاقیامت ان کا نام جگمگاتا رہے۔