تحریر:سہیل بشیر کار
20 مارچ 2022 فجر کی نماز کے بعد جوں ہی واٹس ایپ دیکھا تو ایک عزیر کی اطلاع باصرہ نواز ہوئی. لکھا تھا کہ ’’ملک صاحب نہ رہے‘‘ وہ بھی جانتے تھے کہ میں فوراً سمجھ جاؤں گا کون ملک صاحب….! دیر تک میں سکتے کے عالم میں رہا اور پھر تادیر آنسوؤں نے پلکوں کا بند توڑ دیا. نہ معلوم یہ سلسلہ کب تک جاری رہا،گذشتہ چند سالوں میں اپنے کئی عزیز اللہ کے حضور حاضر ہوئے. ملک صاحب سے آخری ملاقات ایک اوپننگ فنکشن؛ اگست 2021 میں ہوئی، وہ حسب سابق ویل ڈریسڈ تھے. ہشاش بشاش اور پروقار… چہرے پر ہمشہ کی طرح مسکراہٹ سجی ہوئی تھی. باتوں باتوں میں انہوں نے کہا کہ مجھے ہفتہ میں دو دن Dialysis کرانی پڑتی ہے کچھ ماہ سے. میں شرمندہ بھی ہوا کہ مجھے اپنے کرم فرما کے مرض کی اطلاع کیوں نہ ہوئی کہ عیادت کرلیتا. اسی تقریب میں جب ان کے فرزند جو پیشہ سے ڈاکٹر ہیں، نے مجھے بتایا کہ ملک صاحب کو کیا کیا عارضہ ہے تو میں دیر تک ملک صاحب کو تکتا رہا،لیکن چند روز قبل وی پی سنگھ پر ایک کتاب نظر سے گزری. دوران مطالعہ معلوم پڑا کہ وی پی سنگھ کو سات سال تک ڈائلسز پروسز سے گزرنا پڑا اور اس دوران وہ چاک و چوبند سے کام کاج کرتے تھے. میں نے سوچا کہ ملک صاحب بھی انشاءاللہ اچھے سے سرگرم رہیں گے لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا، خیر اس تقریب میں انہوں نے ایسی تقریر کی کہ کسی کو احساس ہی نہ ہوا کہ ملک صاحب کو ہفتہ میں دو بار Dialysis کرانی پڑتی ہے، آواز میں وہی گرج اور چہرہ پرامید… تقریب کے اختتام پر میں نے کہا کہ میں گھر ملاقات کے لئے آجاؤں گا لیکن اس کے بعد کووڈ کی وجہ سے اعراض کیا کہ کہیں میرے ان کے گھر جانے سے تکلیف نہ ہو، ایک بار ان کے گھر کے دروازہ سے واپس لوٹا، البتہ بیچ بیچ میں فون پر اور واٹس ایپ پر ان کی مسیج ملتی رہتی. 11 فروری 2022 کو انہوں نے ایک ویڈیو فاروڈ کیا تو مجھے لگا کہ شاید طبیعت میں بہتری آئی ہے، میں جب بھی کچھ لکھتا ان کو واٹس ایپ پر ضرور بیجھتا اور وہ ہمشہ حوصلہ افزائی فرماتے.
ملک صاحب اپریل 1947 کو تولد ہوئے. آپ نے 1969 ء میں MSC PHYSICS کشمیر یونیورسٹی،سرینگر سے کیا. اس کے بعد مرحوم کا تقرر بحیثیت لیکچرر ہوا. بعد ازاں پرسنل ہائر اسکنڈری اور اخیر میں بحیثیت جوائنٹ ڈایکٹر سبکدوش ہوئے. ملک صاحب کی بنیادی خوبی انتہائی شریف النفسی تھی. یہ شرافت صرف باہر کے لوگوں کے ساتھ ہی نہ تھی بلکہ افراد خانہ کے ساتھ بھی تھی. ان کی ایک بچی نے لکھا چونکہ ملک صاحب DIABATIC PATIENT تھے لہذا انسولین کے بعد دس منٹ ان کو کچھ کھانے کی ضرورت پڑتی لیکن کئی بار کھانا دینے میں دیر ہوئی اور انہوں نے اف تک نہ کیا. شرافت، عاجزی و انکساری کو ان کے خاندان پر جیسے انڈیل دیا گیا ہو.
ملک صاحب کو میں تب سے جانتا ہوں جب وہ ہائر اسکنڈری میں پرسنپل تھے. ان کے دور میں بائز ہائر اسکنڈری اسکول نے ترقی کے منازل طے کئے. نہ صرف تعلیم میں بلکہ دیگر چیزوں میں بھی اس ہائر اسکنڈری کا مقام بلند ہوا. بحیثیت استاد انہوں نے طلباء کی بہترین رہنمائی کی. علم واخلاق کے دوررس اثرات طلبا؛ طالبات پر پڑے. والدین اپنی بچیوں کو مرحوم کی سربراہی میں محفوظ تصور کرتے تھے. اپنی پوری سروس میں مرحوم نے دیانتداری سے کام کیا. کوئی اخلاقی کرپشن ان کے خلاف کبھی سننے میں نہیں آیا.
مرحوم ادارہ فلاح الدارین کے بہی خواہ تھے. وہ ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے ادارہ کو نہ صرف سمجھا بلکہ اس کے فروغ میں اہم رول ادا کیا. ہم نے جب بھی کسی تقریب میں ان کو بلایا نہایت جوش جذبہ کے ساتھ شریک ہوئے، وہ ہمارے رفقاء کے دروس سے بہت متاثر تھے، اکثر مجھے کہتے کہ آپ کے ادارہ کے لڑکے بہت ہی عمدہ درس قرآن دیتے ہیں. ان کے تعلیمی ادارہ SIET College میں ہم نے کئ سالوں تک علاقہ فتح پورہ و خواجہ باغ بارہمولہ کے رفقاء کے لئے تربیتی کلاسز منعقد کئے. ان کی اعلیٰ ظرفی کہ جس کمرے میں ہم کلاس کرنا چاہتے تھے، مرحوم اس کا دروازہ وا رکھتے. عصر کے بعد وہاں نونہالوں کے لیے ہم نے قرآنی درسگاہ کا تقاضا کیا تو بلا تاخیر اس کے لئے بھی کمرہ عنایت کیا. ان کے ساتھ کئی نجی ملاقاتیں بھی رہیں ، ہمشہ خندہ پیشانی سے ملے اور مختلف موضوعات کے پر سیر حاصل گفتگو ہوتی، امت مسلمہ کے تئیں انتہائی حساس تھے. نئی نسل کے بارے میں ہمشہ فکر مند رہتے. کیسے لوگ خود کفیل ہوں؛ اس سلسلے میں وہ نہ صرف فکر مند تھے بلکہ عملی اقدامات بھی کرتے تھے. ان کے خاندان کے کئی نونہال ادارہ سے جڑے ہیں. ویسے بھی ان کی ساری ‘ملک فیملی’ کا ہمشہ ہمیں عملی تعاون ملا ہے، وہ ایک ذمہ دار سرپرست کی طرح اپنے خاندان کی نوجوان نسل کے بارے میں اپڈیٹ اور فکرمند رہتے تھے. نا صرف ان کی عملی رہنمائی کرتے بلکہ ہمشہ حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے. ایک ایک بچے کی خوبی سے واقف تھے. میں ان کی قرابت داروں کے تئیں فکرمندی پر ہمشہ رشک کرتا تھا.
کسی بھی قوم کی ترقی کا بنیادی راز تعلیم ہے، یہی تعلیم قوموں کو عروج عطا کرتی ہے. غلام محمد ملک صاحب اس بات سے بخوبی واقف تھے، وہ ماہر تعلیم تھے. جب یہاں بی ایڈ کو ضروری کیا گیا تو جن افراد نے کشمیر میں بی ایڈ کا کانسپٹ دیا؛ ان میں ملک صاحب کا نمایاں رول رہا ہے. بی ایڈ کالج کی چین جب کشمیر میں پھیل گئی تو نہ صرف یہاں کے پڑھے لکھے بچوں نے یہ ڈگری حاصل کی بلکہ کشمیر سے باہر ہزاروں طلباء بھی کشمیر آئے. جس سے کشمیر کی معاشی صورتحال بھی بہتر ہوئی. اور مختلف مذاہب کے افراد کو کشمیر کا خوبصورت کلچر جاننے کا موقع ملا. مرحوم ملک صاحب بنیادی تعلیم کی ضرورت سے واقف تھے. اس سلسلے میں وہ ہر تعلیمی ادارے کی مدد کرتے. انہوں نے ایک خوبصورت کیمپس بھی قائم کیا، جہاں کم فیس میں اعلی تعلیم دی جاتی ہے، ان کی خواہش تھی کہ تعلیمی اداروں میں مطالعہ پروان چڑھے. اس سلسلے میں انہوں نے اپنے اسکول میں اچھی لائبری قائم کی، مجھے یاد ہے کہ انہوں نے ایک بار مجھے کہا کہ آپ اسکول کا visit کریں، پھر ایک ایک کلاس روم میں لے گیے بچوں سے Interaction کرایا اور خصوصی طور پر لائبریری کا معائنہ کروایا، اور کہا کہ اس سلسلے میں اپنی suggestions دیجئے ،وہ خود بھی مطالعہ کا اعلی ذوق رکھتے تھے البتہ انہیں مولانا مودودی کی تحریروں سے عشق تھا. ان کے احباب انہیں عاشق مودودی کہتے. ایک ماہ قبل ان کے زیر مطالعہ ‘ مولانا مودودی کی پانچ اے ذیل دار پارک ‘ کی تیسری جلد تھی. ساتھ ہی وہ تعلیم میں Extra curriculum activities کے قائل تھے. اس سلسلے میں ان کے اسکول میں ایک بڑا ہال تھے جہاں ڈبیٹ، کانفرنسیں اور تقایر ہوتی تھیں. اسکول کے طلبہ اور سماج کے دیگر افراد سے تقاریر کراتے تاکہ طلبہ کی صلاحیتوں میں نکھار آجائے.
ملک صاحب کا تعلق فتح پورہ بارہمولہ سے تھا، وہاں کے لوگ پیشہ کے اعتبار سے زراعت اور باغبانی سے تعلق رکھتے ہیں. ملک صاحب اگرچہ جوائنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر سبکدوشی ہوئے لیکن وہ ہر شخص کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، مسجد میں گاؤں کے ہر فرد کے ساتھ ذاتی تعلقات تھے، اگرچہ سرکاری محکموں میں ان کے بہت رابطے تھے لیکن بنیادی طور پر زمین سے جڑی ہوئی شخصیت تھے؛ یہی وجہ ہے کہ بارش کے باوجود ان کے جنازہ میں کثیر تعداد میں مختلف مکاتب فکر کے لوگ ان کو الوداع کرنے کے لیے غمناک آنکھوں سے شامل تھے. ہر ایک کو لگ رہا تھا کہ اس کا کوئی عزیر چلا گیا. وہ واقعی عزیر جہاں تھا، وہ چاہتے تھے کہ یہاں کے نوجوان اچھے اچھے پوسٹس حاصل کریں،ایک ایڈمنسٹریٹو افسر نے کہا کہ وہ میرا تقرر بطور آر ٹی ہوا تھا. اس وقت مجھے محکمہ نے بہت سی مشکلات میں مبتلا کیا. تو کسی نے مجھے ملک صاحب کا بتایا .میں ان کے دفتر گیا انہوں نے نہ صرف میرا وہ مسئلہ حل کیا بلکہ اس کے بعد لگاتار مجھ سے رابط رکھا اور مجھے ایڈمنسٹریٹو امتحان کے لیے ابھارتے رہے اور میں نے ان کاامتحان بھی پاس کیا، یہ جذبہ باقی سب نوجوانوں کے لئے بھی تھا، آپ ہمیشہ چاہتے کہ صالح نوجوان اچھی پوسٹس پر ہوں، وہ بہترین ایڈمنسٹریٹر بھی تھے دوران سروس انہوں نے کئی اہم فیصلے بھی لیے.
ملک صاحب ساتھ ہی سوشل ورکر بھی تھے،غریبوں کی مدد کے لیے پیش پیش رہتے، کمزور طبقات بھی ان کے پاس بلاتکلف آتے تھے. آپ نہ صرف خود سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے بلکہ جتنی بھی تنظیمیں اور ادارے تھے؛ ان کی معاونت کرتے. بہت سے اداروں کو فروغ دینے میں انہوں نے رول ادا کیا ، جو کہ انشاء اللہ ان کے لیے صدقہ جاریہ رہے گا. اس سلسلے میں ان کی خوبی تھی کہ وہ تعصب سے بالاتر تھے. ہر کسی کو تعاون کرتے، ان کے انتقال کے وقت ان کے دوست تلاوت کر رہے تھے ملک صاحب بھی دوہراتے، جب وہ دوست ‘وَادخُلی جَنَّتی ‘ پر پہنچے ملک صاحب نے بھی ‘وادخلی جنتی ‘ پڑھا اور اسی کے ساتھ ہی ان کی روح پرواز کرکے اپنے اللہ کے حضور پہنچ گئی .رب العزت لغزشوں سے درگزر فرمائے اور جنت الفردوس کا اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین