تحریر:سہیل بشیر کار
دین اسلام جس معاشرے کی تعمیر کرنا چاہتا ہے اس میں انسانوں کے درمیان محبت بنیادی شرط ہے۔ اس طرح کے معاشرے کو ایک جسم سے تعبیر کیا گیا ہے گویا جسم کے کسی ایک حصہ میں اگر درد پیدا ہو تو اس کے اثرات پورے بدن میں محسوس ہوتے ہیں . اس طرح کے معاشرے ہی پاکیزہ معاشرہ کہلاتے ہیں .یہاں اگر زور دیا جاتا ہے تو آپسی تعلقات بہتر بنانے پر دیا جاتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کا سہارا بنیں، ایک دوسرے کی مضبوطی کا سبب بنیں۔ مسلم معاشرے کو اسی وجہ سے دیوار سے تشبیہ دی گی ہے، جہاں ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔ قرآن اور حدیث کا وافر ذخیرہ ایسی تعلیمات پر مشتمل ہے جو فردکو عامتہ الناس کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ سکھاتا ہے۔ آپسی خیر خواہی ہی تو اسلام کا طُرح امتیاز ہے۔ وہ سب مثبت اقدار آپ دین میں پائینگے جن سے اسی خیرخواہی کو فروغ ملتا ہے اور ان سب منفی اقدار کی نفی پائینگے جن سے اس جذبہ خیرخواہی کو گزند پہنچنے کا احتمال ہے. ان ہی اقدار میں ایک اہم قدر ہے حسنِ ظن۔
اسلام ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کے بارے میں حسنِ ظن رکھتے ہوں۔ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم لوگوں کے بارے میں کوئی بھی ایسی رائے قائم نہ کریں جس کی ہمارے پاس ٹھوس بنیاد (علم) نہ ہو،ہمیں تو سکھایا گیا ہے کہ انسان اصل میں خیرکامنبع ہے، فطرت ِ سلیم پرپیداہوتا ہے۔ البتہ کبھی جذبات سے مغلوب ہوکر یا لاعلمی اور نسیان کے سبب اس سے غلطی سرزد ہوسکتی ہے لیکن وہ اپنی سرشت میں برا نہیں ہے. یہاں ہر وہ عمل محبوب ہے جس سے دلوں میں محبت پیدا ہو. یہاں کسی دوسرے کے ساتھ مسکرا کر پیش آنے کو صدقہ کہا گیا ہے، یہاں سلام میں سبقت کو اجر کا وعدہ ہے، اور اسی آپسی محبت کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے دل ایک دوسرے کے بارے میں صاف ہوں۔ اسلام ان تمام چیزوں سے لوگوں کو روکتا ہے جن سے باہمی تعلقات میں کمی ہوتی ہے۔ لوگوں میں بدظنی پیدا ہو تو معاملہ الزام تراشی تک پہنچ جاتا ہے اور ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے یہی الزام تراشی کا رواج عروج پر ہے.
آزاد دائرہ معارف ‘کے مطابق الزام تراشی کی تعریف یہ بتائی گئی ہے :
“الزام تراشی ایک ایسا عمل ہے جس کی رو سے ایک شخص یا گروہ کسی دوسرے شخص یا گروہ کو نشانہء ملامت بناتا ہے، کوستا ہے، منفی بیانات پیش کرتا ہے اور اس فرد ثانی یا گروہ ثانی کو سماجی یا اخلاقی طور پر غیر ذمے دار ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ”
الزام کبھی فرد پر لگایا جاتا ہے تو کبھی کسی خاص گروہ یا خاص مذہب پر، جیسا کہ اس وقت اسلام اور ان کے ماننے والوں پر ہر طرح کے الزام لگاے جاتے ہیں۔ امت مسلمہ کو مجموعی طور پر تعلیم دی گئی ہے کہ وہ کسی طرح کے پروپیگنڈا کا شکار نہ ہو ں۔ کسی بھی پروپگنڈا کے وقت فرد کا رویہ حسن ظن کا ہونا چاہیے۔ جب امی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پر الزام لگایا گیا تو مسلمانوں کو کہا گیا کہ آپ نے ابتدا میں ہی اس پروپیگنڈا کو قبول کیوں کیا۔ الزام تراشی بہت بڑا گناہ ہے۔ اسلام میں زنا جیسے قبیح گناہ کے لیے سو کوڑوں کی سزا ہے اور اگر کسی نے زنا کا الزام لگایا اور وہ ثابت نہ کرسکا تو اس کو 80 کوڑوں کی سزا ہے،
آج میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ پروپگنڈا ایک بڑی انڈسٹری بن گیا ہے۔ یہ میڈیا ہی ہے جو انسان کی سوچ تبدیل کرتا ہے، give bad name the Dog and kill him اب بطور اصول استعمال ہو رہا ہے،اور اس پروپگنڈہ کی وجہ سے اب لوگوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ امت مسلمہ اس منفی پروپگنڈہ کی سب سے زیادہ شکار ہے۔ ایسے میں ایمان کاتقاضاہے کہ ہم اس قبیح گناہ اوربداخلاقی سے ہرصورت خودکومحفوظ رکھیں۔ کیونکہ نادانستہ طورپرہم کسی پرالزام یاتہمت لگاکراُس شخص کی ساخت،عزت وناموس، اس کی زندگی یہاں تک کی اُس کے اہل وعیال کی زندگی بھی دائو پرلگالیتے ہیں۔ ایمان لانے کے بعدایسے امورِفسق میں نام کمانااللہ کے غضب کودعوت دیناہے۔ کیونکہ کسی بے گناہ شخص کی عزت، ناموس اورجان کی اہمیت کعبہ سے بڑھ کرہے۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے “جوشخص کسی مؤمن کے بار ے میں ایسی بات کہے جواُس میں نہ ہوتواللہ تعالی اس شخص کوجہنمیوں کے پیپ میں ڈالدے گااوریہ اس پیپ میں اس وقت تک پڑارہے گاجب تک سزاپوری نہ کرلے”( سنن ابوداود: ۹۹۵۳) ایسی سخت وعید کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ امت مسلمہ کا کوئی فرد یا کوئی گروہ اس قبیح مرض کا شکار ہوجائے۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم پر اور ان کے اصحابِ پر بھی مختلف الزامات لگائے گیے لیکن انہوں نے اس کا جواب جوابی الزام سے نہیں دیا۔ دشمنوں پر بھی جوابی الزام کی اجازت نہیں ہے کجا کہ مسلمان آپس میں الزام لگائے۔ مگر بدقسمتی سے امت مسلمہ میں یہ مرض پروان چڑھ رہا ہے ہے۔ کسی پر کافر، بدعتی، مشرک، ایجنٹ،فاسق وغیرہ کا الزام لگانا اب عام سی بات ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا میں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ آئے روز ہم دیکھتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مساجد کے منبر سے بھی ایسی آوازیں آتی ہیں، حالانکہ ہمیں یہ کہا گیا تھا کہ جو کسی پر کفر اور فسق کا الزام لگاے اور اگر وہ کافر یا فاسق نہ ہو تو کہنے والا ہی کافر یا فاسق ہوگا۔ (بخاری ومسلم)
حیرانی ہوتی ہے جب امت مسلمہ کے افراد اس گناہ عظیم میں شامل ہوجائیں حالانکہ انہیں ایک دوسرے کا دفاع کرنے کو کہا گیا تھا۔ حضرت جابر بن ابی طلحہ الانصاری رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،”اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر نہیں کرتا جہاں اس کی تذلیل کی جارہی ہو اور اس کی عزت پر حملہ کیا جارہا ہوتو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حمایت ایسے موقع پر نہیں کرتا جہاں وہ اللہ کی مدد کاخواہاں ہو اور اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر کرتا ہے جہاں اس کی عزت پر حملہ کیا جارہا ہو اور اس کی تذلیل وتوہین کی جارہی ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی مددایسے موقع پر کرتا ہے جہاں وہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے۔ (ابو داؤد)اللہ رب العزت کے نزدیک ایک مسلمان کی عزت محترم ہے۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بدترین زیادتی کسی مسلمان کی عزت پر ناحق حملہ کرنا ہے (ابوداؤد)
آج جب امت مسلمہ انتہائی مشکل دور سے گزر رہی ہے ایسے میں ضرورت ہے کہ امت مسلمہ میں باہمی خوشگوار فضا کو پروان چڑھایا جاے نا کہ آپسی منافرت ہو، الزام تراشی سے باہمی نفرت ہی پھیلتی ہے۔ جب امت مسلمہ کسمپرسی کی حالت میں ہو ایسے میں ضرورت ہے سب کو ساتھ لے کر چلے، رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زندگی میں کبھی عبداللہ بن ابی کو بھی avoid نہ کیا۔ کسی فرد یا جماعت پر الزام لگانے سے پہلے ہمیں سوچنا چاہیے کہ کہیں ہم ایسا الزام لگا کر اپنی قوت کو سمیٹ تو نہیں رہے ہیں۔ اپنی جمعیت کو کمزور تو نہیں کر رہے ہیں۔ وسعت قلبی ہی ایسا وصف ہے جس سے اجتماعیت کو اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیابی ملتی ہے، جس قدر ہم میں ظرف ہوگا اس قدر لوگ ہم سے جڑ جائینگے۔