تحریر:میر غلام حسن
حضرت علیؓ خلفاء راشدین میں سے تھے ۔آپؓ نے صغر سنی ہی سے حضورﷺ کی دعوت پر لبیک کہا اور یوں تو انھوں نے دربار رسالت میں خاص مقام حاصل کیا ۔حضرت علیؓ کے والد محترم کا نام ابو طالب تھا جنھوں نے آں حضورﷺ کو کافی شفقت دی اور اس طرح سے کٹر سے کٹر دشمن تک دم بخود ہو گئے ۔حضرت علیؓ وہ خوش نصیب انسان تھے کہ جن کا بچپن حضور ﷺ کی تربیت اور سرپرستی میں گذرا ۔حضورﷺ کے چچا ابو طالب کے بچوں کی کثرت تھی اور آمدنی محدود تھی ۔اسلئے حضرت جعفرؓ کی کفالت حضرت عباس ؓ نے اپنے ذمہ لی اور حضرت علیؓ کو حضور ﷺ نے اپنی کفالت اور سرپرستی میں لے لیا ۔حضورﷺ کو حضرت علی ؓ پر انتہائی اعتماد تھا جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپؐ نے اپنی اس بیٹی کا نکاح حضرت علی ؓ سے کیا جسے آپؐ نے جنتی خواتین کی سردار قرار دیا اور یوں حضورﷺ نے فرمایا کہ فاطمہؓ میرے جسم کا ٹکڑا ہے ۔جو فاطمہؓ کو اذیت دیتا ہے وہ مجھے اذیت دیتا ہے ،جو اسے رنج دیتا ہے وہ مجھے رنج دیتا ہے ۔یوں تو آپ ؐ کو اپنی ساری صاحبزادیوں سے پیار اورانس تھامگر حضرت فاطمہ ؓ سے زیادہ ہی لگاؤ تھا ۔حضرت علی ؓ کو بھی حضورؐ پُرنور کے ساتھ کافی لگاؤ تھا ۔ہجرت کی رات کو یاد کرو تو صاف ظاہر ہے کہ قریش رسول ﷺکی زندگی کا چراغ گل کر دینے کا قصد کیا تھا اور آپ ؐ کے مکان کا محاصرہ کر لیا تھا ۔اللہ کا کرنا تھا کہ اس نے حضور ﷺ کو اس گھناؤنی سازش سے باخبر فرمایا ۔حضورﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا اور فرمایا ’’تمہیں کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا ‘‘غور و فکر کا مقام ہے کہ اس مشکل گھڑی میں حضورﷺ کے فرمان کو بجا لانا کتنا مشکل کام تھا جب کہ باہر بدترین دشمنوںکا گھیراؤ تھا ۔اللہ کے فضل سے حضورﷺ وہاں سے نکلے تھے ۔حضرت علیؓ کو یہ بھی پتہ تھا کہ جب دشمنوں کو حضور ﷺ کے نکلنے کا پتہ چل جائے تو ان کا کیا رخ ہوگا ،لیکن حضرت علی ؓ کو آں حضورﷺ سے اتنی محبت تھی کہ وہ بلا خوف آپؐ کے بستر پر لیٹ گئے ۔مقتل میں سونے والا کون تھا ؟ صرف حضرت علیؓ ۔حضرت علیؓ کو اس بات پر یقین تھا کہ حضور ﷺ نے انھیں فرمایا تھا کہ تمہیں کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا ،ہوا بھی ایسا ہی ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ حضرت علیؓ نے وہ امانتیں ان لوگوں کو واپس کی جن کو واپس کرنے کا حضورﷺ نے انھیں حکم دیا تھا اور پھر وہ بھی مدینہ پہنچے ۔جب وہ مدینہ پہنچے تو حضور ﷺ نے انہیں اپنے پاس بلایا ۔لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت علی ؓ چل نہیں سکتے پھر حضور ﷺ خود آپؓ کے پاس تشریف لے گئے کیونکہ حضرت علی ؓ کے پاؤں پھٹ چکے تھے ۔حضورﷺ نے انہیں گلے لگایا اور ان کے پیروں کے زخم دیکھ کر حضورﷺ کی آنکھوں سے آنسوں بہہ گئے اور آپؐ نے حضرت علیؓ پر اپنا مبارک لعاب دہن لگایا اور مقدس ہاتھ ان پر پھیرا جس کی وجہ سے حضرت علیؓ کی تکلیف دور ہوئی۔رسول ﷺ کو حضرت علی ؓ پر اعتماد یہاں تک تھا کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر جب حضورﷺ نے حضرت علی ؓ کو اہل بیت کی دیکھ بال کے لئے چھوڑنا چاہا تو حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ منافقین یہ دیکھ کر افواہیں پھیلائیں گے تو حضورﷺ نے آپؓ سے فرمایا اے علیؓ! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہیں کہ میرے اعتماد اور میری نیابت کے معاملے میں تمہاری حیثیت وہی ہے جو حضرت ہارونؑ کی حضرت موسیٰ کے ساتھ تھی ہاں یہ ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی بنی نہیں ہوگا (بخاری) ۔ رسولﷺ سے حضرت علیؓ کی محبت کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے کہ ایک دن رسول ﷺ کے گھر فاقہ تھا حضرت علیؓ کو معلوم ہوا تو تڑپ اٹھے جی نے چاہا کہ آقا ؐ کو کچھ کھلاؤں مگر خود آپؓ کے گھر میں بھی کچھ نہیں تھا چنانچہ مزدوری کی تلاش میں گھر سے نکل پڑے تاکہ آں حضورﷺ کی ضرورت پوری ہوجائے اس طرح سے آپؓ ایک یہودی کے باغ میں پہنچے اور باغ کو پانی دینے کا کام خود اپنے ذمہ لیا ،مزدوری یہ تھی کی ایک ڈول پانی کھینچنے کے عوض ایک کھجور ملے گا اس طرح سے آپؓ نے سترہ ڈول کھینچے اور سترہ عجوہ کھجوریں لے کر حضورﷺ کی خدمت میں پیش ہوئے تو حضورﷺ نے فرمایا کہ اے علی ؓ! یہ کہاں سے لائے ہو تو عرض کیا کہ اے اللہ کے نبیؐ مجھے پتہ لگا تھا کہ آج آقاؐ کے گھر میں فاقہ ہے اس لئے میں نے مزدوری کی تاکہ کچھ کھانے کا سامان کر سکوں تو رسولﷺ نے فرمایا تم کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت نے ایسا کرنے پر آمادہ کیا تھا حضرت علیؓ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ﷺ۔جہاں تک حضرت علیؓ کے دل میں حضورﷺ کے ادب و احترام کا تعلق ہے اس کے لئے یہ واقعہ چشم کشا ہے کہ جب حضورﷺ اور قریش کے درمیان صلح کا معاۂدہ ہوا تو حضورﷺ نے حضرت علیؓ کو معاۂدہ لکھنے کے لئے بلوایا ۔اس موقعہ پر قریش کے نما ئندہ نے رسول اللہ ﷺ لکھنے پر اعتراض جتایا اور کہاکہ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو نہ ہم آپ کو بیت اللہ آنے سے روکتے نہ آپ سے لڑتے ۔ پھر آپؐ نے حضرت علیؓ کو حکم فرمایا کہ ’’رسول اللہ ﷺ کے الفاظ مٹا دو ‘‘ ان کے بجائے (محمد بن عبداللہ ) لکھ دو تو حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ خدا کی قسم میں رسول ﷺ کے الفاظ اپنے ہاتھ سے نہیں مٹا سکتا ۔رسول ﷺ نے فرمایا مجھے وہ جگہ بتاؤ جہاں (رسول اللہﷺ ) لکھا ہے میں خود مٹا دیتا ہوں۔حضورﷺ نے حضرت علی ؓ کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’تم میں سے زیادہ صحیح فیصلہ کرنے والے علیؓ ہیں‘‘ آپ ؓ ابھی نوجوان ہی تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کو اپنا نمائیندہ بنا کر یمن بھیجا تو حضرت علی ؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ مجھے ان لوگوں کی طرف روانہ کر رہے ہیں جن کے آپس میں جھگڑے ہوں گے مجھے فیصلہ کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے تو حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تمہاری زبان سے صحیح فیصلہ نکلوائے گا اور تمہارے دل کو اس پر مطمئن کر دے گا کہ تم صحیح فیصلہ کر رہے ہو ۔حاصل کلام یہ کہ آپ ؓ کی زندگی کے بے شمار ایسے گوشے ہیں جن میں آج بھی انسانیت کے لئے رہنمائی موجود ہے ۔آپؓ کی پوری زندگی حضورﷺ کی محبت میں گذری ۔آپؓ ہر وقت اور ہر دم حضورﷺ کے حکم پر لبیک کہنے والے تھے ۔حضرت علیؓ نے دنیا سے نکلتے وقت شہادت کا جام نوش فرما کر یہ ثابت کر دیا کہ حضورﷺ کے مبارک ہاتھوں سے قائم کئے ہوئے نظام کی حفاظت کرنا ہی مومن کا اصل کام ہے ۔ وقت کی اشد ضرورت یہ ہے کہ حضرت علیؓ کی مقدس زندگی کے روشن گوشوں پر غور کیا جائے اور آپؓ کی تعلیمات کو حقیقی روپ میں لوگوں تک پہنچایا جائے تاکہ آج بھی انسانیت ان کی تعلیمات سے مستفید ہوجائے ۔