تحریر : ایس معشوق احمد
یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ موجودہ دور میں زندگی کے ہر شعبے میں مقابلہ اور دوڑ جاری ہے۔ترقی کی اس دوڑ میں ہر فرد دوسرے سے بازی لے جانا چاہتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دوسروں سے نفع یاب رہے ۔تجارت بھی اس سے مُسْتَثْنٰی نہیں ہے۔آج کل زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز تدبیر کی جاتی ہے تاکہ کاروبار کو وسعت دی جائے۔ کسی شئے کی خرید و فروخت میں اہم کرار اشتہار نبھاتا ہے۔ اشتہار کے ذریعے جس شئے کو جتنا زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیاجاتا ہے لوگ اتنا ہی اس کی طرف راغب ہوتے ہیں۔اسی کا فائدہ اٹھا کر کاروباری ذہانت رکھنے والے اشخاص سوشل میڈیا ، ریڈیو اور اخبارات میں مختلف اشیاء کے اشتہارات کی تشہیر کرتے ہیں تاکہ کاروبار میں وسعت آجائے۔کھانا پینے کی اشیاء سے لے کر ضرورت کی مختلف چیزوں ، ادویات ، ڈاکٹروں ، دکانوں ، برتن ، آرائش و زیبائش کا سامان ، غرض ہر وہ شئے جو بک رہی ہے اور جو بکنے کے قابل ہے کی تیز بکری کے لیے توجہ طلب اشتہارات نشر کئے جاتے ہیں۔ان اشتہارات میں اتنی کشش ہوتی ہے کہ یہ فورا خریدار کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں اور اکثر خریدار للچا کر ان اشیاء کو خرید لیتے ہیں۔ان اشیاء کو استعمال کرنے کے بعد خریدار پر اس راز کا انکشاف ہوتا ہے کہ اس چیز میں وہ خوبیاں نہیں ہیں جو پہلے گنائی گئی تھیں۔اشتہار میں جس ڈاکٹر صاحب کی تعریفوں کے پل باندھے گئے تھے وہ ادویات ہی جعلی نہیں لکھتا بلکہ چند سال بعد یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ وہ ڈاکٹر بھی نقلی ہے۔ جس چائے کو اشتہار میں شہد سے میٹھی بتایا گیا ہے استعمال کے بعد اس راز سے پردہ اٹھتا ہے کہ وہ ملاوٹی ہے۔ اشتہار میں جس اسکول کو ہارورڈ کے برابر قرار دیا گیا ہے وہاں بچوں کو بھیجنا وقت کا زیاں ہی نہیں بلکہ ان کا مستقبل خراب کرنے کے برابر ہے۔جس آٹے دال کو خالص کہا گیا ہے اس میں ملاوٹ اتنی ہے کہ اس میں خالص پن ملاوٹ شدہ شئے کی وجہ سے آیا ہے۔غرض جس چیز کو جو ظاہر کیا گیا تھا وہ ویسی نہیں نکلتی۔اس تمام صورتحال کے بعد گاہک کے ذہن میں یہ سوال گردش کرتا ہے کہ کیا یہ اشتہارات جھوٹے ہوتے ہیں کیونکہ فقیر کو بادشاہ ، نقلی کو اصلی اور خراب کو بہترین ثابت کرنے میں یہ اشتہارات مہارت رکھتے ہیں۔
پرکھ کے بعد ہی کسی شئے کا پتا چلتا ہے کہ وہ کھوٹی ہے یا کھری ، اصلی ہے یا نقلی۔ریڈیو سے لے کر اخبار تک ،دیواروں سے لے کر پیڑوں تک جہاں انسان کی نظر جاتی ہے وہاں اشتہارات چسپاں کئے ہوئے نظر آتے ہیں۔انسان کا ان اشتہارات سے اپنی توجہ ہٹانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا ہے۔ ان اشتہارات کے ذریعے دو ٹکے کی چیز کی اتنی تعریف کی جاتی ہے کہ وہ غیر معمولی لگتی ہے اور لوگ اس شے کی خریداری کو اپنے لئے عزت و توقیر سمجھتے ہیں۔ اشتہار میں کسی خاص اصول کو نہیں اپنایا جاتا نہ ہی کوئی اخلاقی پہلو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ مٹی کو سونے کے بھاؤ فروخت کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ شئے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے جاتے ہیں۔ یہ ذہن میں رہے کہ جھوٹی تعریف سے مٹی،مٹی ہی رہتی ہے سونا نہیں بنتی۔جس شئے کے بارے میں اشتہار کے ذریعے یہ دعوی کیا گیا تھا کہ وہ نہایت پائیدار اور مضبوط ہے جب خرید کر وہ استعمال میں لائی جاتی ہے تو وہ کاغذ کی کشتی ثابت ہوتی ہے۔اشتہارات میں حد سے زیادہ جھوٹ اور مبالغہ آرائی سے حتی الامکان یہ کوشش کی جاتی ہے کہ لوگوں کو دھوکہ دیا جائے۔اسپتال کے بارے میں اشتہار میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ یہاں ہر مریض کا بہترین علاج کیا جاتا ہے اور یہ جدید سامان سے لیس ہے لیکن جب مریض مرض کا علاج کرنے وہاں پہنچ جاتا ہے تو وہ حیران رہ جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ خستہ عمارت تو گائے بھیس باندھے کے لائق بھی نہیں یہاں جدید سامان اور علاج تو دور کی بات رہی۔ اشتہار کے ذریعے مریض کو نہ صرف دھوکہ دیا جاتا ہے بلکہ اس کا وقت بھی ضائع کیا جاتا ہے۔لوٹ کھسوٹ جاری ہے جس میں اشتہار بھی اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔فائدے کو مدنظر رکھ کر زہر کو قند کہا جارہا ہے۔اس جھوٹ کے بازار کو گرم رکھنے میں ریڈیو اور اخبار بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے کہ وہ جو جھوٹ اور دھوکہ کا کاروبار کرتے ہیں۔دو تین بار کسی شئے کو آزمانے کے بعد اس سے اعتبار اٹھ جاتا ہے اور اس کی بھی ساکھ خراب ہوجاتی ہے جو اس کی حمایت کرتا ہے۔کارو بار کو پھیلانا ہے لیکن خوشامد اور جھوٹ کی ناؤ استمعال کرکے نہیں اور نہ ہی دھوکے اور ورغلا کر گاہکوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے بلکہ جائز طریقے استعمال کرکے بھی کاروبار کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سچ کا ساتھ دیا جائے اور جھوٹ سے پرہیز برتا جائے تاکہ لوگوں کے پیسوں کا زیاں نہ ہو اور انہیں مناسب چیز اچھے داموں دستیاب رہے۔