لوگوں کے لئے یہ نئی اطلاع نہیں ہے کہ بجلی کا بحران مقامی نہیں بلکہ ملکی نوعیت کا مسئلہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چند مخصوص حلقوں کو چھوڑ کر عام لوگ خاموش رہے ۔ تاہم اس بات نے سب کو حیران کردیا کہ صرف 500 میگاواٹ کی کمی کو لے کر جس طرح لوگوں کو تڑپایا جارہاہے وہ محکمہ بجلی کی بے بسی کا ثبوت ہے ۔ محکمے کے سربراہ نے اس آڑ میں اس تماشے کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جو پچھلے ایک مہینے سے کشمیر میں کیا جارہاہے ۔ بجلی کی مسلسل آمد اور رفت نے لوگوں کو سخت پریشان کیا ہوا ہے ۔ ماہ رمضان کے دوران صرف سحری اور افطار کے وقت لوگوں کو بجلی کی اشد ضرورت تھی ۔ محکمے کے پاس پورے خطے کو ان دو موقعوں پر بجلی فرام کرنے کے لئے سپلائی موجود نہ تھی تو لوڈ شیڈنگ کا شیڈول بناکر کسی حد تک مسئلہ حل کیا جاسکتا تھا ۔ لیکن معنی خیز انداز میں ایسا نہیں کیا گیا ۔ ظاہر سی بات ہے کہ محکمے نے اس طرف توجہ نہ دے کر صارفین کے ساتھ بڑا مزاق کیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔
بجلی سپلائی کے جس پرابلم کا سامنا اس وقت کشمیر میں ہے وہ آج کل کی بات نہیں ۔ بلکہ پچھلے پچتھر سالوں سے لوگ اس صورتحال کا سامنا کررہے ہیں ۔ متعلقہ محکمے کا کہنا ہے کہ صارفین حد سے زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں ۔ ملک کے دوسرے حصوں کے بجائے کشمیر میں بڑے پیمانے پر بجلی کی چوری کی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں یہ ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ بجلی کے سب سے زیادہ وسائل موجود ہونے کے باوجود اس مسئلے کو آج تک حل نہیں کیا جاسکا ۔ پچھلے کچھ عرصے سے امید دلائی جارہی ہے کہ بہت جلد اس مسئلے پر قابو پایا جائے گا ۔ سمارٹ میٹر لگانے سے یقینی طور اس پرابلم کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔ اس وقت تک انتظار لازمی ہے ۔ تاہم یہ بات عجیب ہے کہ 1100 میگاواٹ بجلی دستیاب ہوتے ہوئے محکمہ اس کو بہتر انداز میں تقسیم کرنے میں پوری طرح سے ناکام ہے ۔ نچلی سطح پر کام کرنے والے ملازم اس کام کو انجام نہیں دے سکتے ۔ لوڈ شیڈنگ کا شیڈول اعلیٰ سطح کے آفیسروں کا کام ہے ۔ ایسا کیوں نہ کیا جاسکا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ سرما کی سرد ترین راتوں کے دوران بجلی فراہم رہی ۔ چیف انجینئر کا کہنا ہے کہ موسم میں شدت آنے اور گرمی بڑھ جانے سے بجلی کی کھپت میں اضافہ ہوا ۔ یہ صحیح بات نہیں ۔ ابھی لوگوں نے کوئی ایسے آلات استعمال کرنا شروع نہیں کئے ۔ بلکہ سردیوں کے دوران جتنا دبائو تھا اب اس کا عشر عشیر بھی نہیں ۔ اس کے باوجود صارفین کو دوشی ٹھہرایا جاتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی بجلی کی کمی ہے ۔ وہاں جس قدر فیکٹریاں پائی جاتی ہیں کشمیر میں ایسا کچھ بھی نہیں ۔ کہا گیا کہ کووڈ کے دوران فیکٹریاں بند تھیں ۔ اب ان سے کام کرایا جارہاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بجلی کی کھپت میں اضافہ ہوا ۔ یہ صرف ایک شخص بتاتا ہے ۔ باقی کوئی بھی اس زاویے سے نہیں سوچتا ۔ کشمیر میں مسئلہ یہی ہے کہ فیکٹریاں نہیں ۔ پھر یہ فیکٹریاں کہاں ہیں جن کے استعمال سے بجلی کا بحران پیدا ہوا ۔ جتنا بحران پایا جاتا ہے وہ فیکٹریوں یا صارفین کی وجہ سے نہیں ۔ اس بات کا اقرار ہر کوئی کرتا ہے کہ ملک میں بجلی کی کمی کا اثر کشمیر پر بھی پڑنا ہے ۔ اس کے باوجود جس قدر بجلی میسر ہے اس کی تقسیم صحیح ڈھنگ سے نہیں کیا جارہاہے ۔ لوگ اسی بات پر نالاں ہیں کہ شیڈول بناکر لوگوں کو ٹارچر سے نجات دینے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ بجلی کی تقسیم کے حوالے سے وہی دقیانوسی طریقہ اپنایا جارہاہے جو پچاس سال پہلے رائج تھا ۔ جدید دور میں اس طرح کے نظام کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ بجلی کے لئے پچھلے چند سالوں سے نیا ڈھانچہ کھڑا ہورہاہے ۔ دودراز کی بستیوں تک بجلی پہنچائی گئی ۔ کوئی گھر اور کوئی بستی ایسی نہیں جہاں بجلی کے کھمبے نظر نہ آتے ہوں ۔ کھمبے کھڑا کرنے اور تاریں بچھانے سے اصل مسئلہ پر قابو نہیں پایا جاسکتا ہے ۔ یہاں یہ بات کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پچھلے کچھ ہفتوں سے بجلی محکمے نے کئی علاقوں میں اچانک اور کسی سے پوچھے بغیر بجلی فیس میں اضافہ کیا ۔ بغیر کسی اصول اور ضابطے کے بجلی فیس دوگنی کی گئی۔اس سے محکمہ کو کیا حاصل کرنا ہے کسی کی بھی سمجھ سے باہر ہے ۔ فیس بڑھاکر یہ ظاہر کرنا کہ کاردگی میں اضافہ ہورہا ہے کسی طور صحیح نہیں ہے ۔ مانا کہ ملازموں پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ فیس کی وصولی میں ہر ماہ اضافہ ہونا چاہئے ۔ اپنی ساکھ بچانے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے ۔ لیکن اس ذریعے سے بجلی بحران کو حل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ یہ کام صرف سرکار کرسکتی ہے ۔ منصفانہ طریقے سے بجلی کی تقسیم کی جائے تو لوگوں کو مطمئن کیا جاسکتا ہے ۔ ایسا نہ کیا گیا تو لوگوں میں بے چینی بڑھ سکتی ہے ۔ بجلی جدید دور میں کھانے پینے کی طرح ضروری شے ہے ۔ اس کو فراہم کرنا بھی ضروری ہے ۔