تحریر:عابد حسین راتھر
آج کل بیشتر سرکاری دفاتر اور سرکاری اداروں میں بنی نوع انسان پر اللہ کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں اور فرائض سے سب سے زیادہ منہ موڑ لیا جاتا ہے اور عوامی و انسانی حقوق کی سب سے زیادہ پامالی انہیں دفاتر میں ہوتی ہے۔ انسان کو زندگی کا سب سے تلخ، ناخشگوار اور ناپسندیدہ تجربہ آجکل کے سرکاری دفاتر اور سرکاری اداروں میں ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی سرکاری دفتر یا اداررے کی حالت زار دیکھ کر دل بہت افسردہ اور اُداس ہوتا ہے اور ایک عام انسان حکومت کے بدعنوانی کے خاتمے اور عوامی سہولیات کی دستیابی کے بڑے بڑے دعوؤں سے بدظن ہوتا ہے۔ بیشتر سرکاری دفاتر کے اکثر ملازمین کی ناخواندگی، ناتجربہ کاری اور نااہلی کا خمیازہ عام انسان کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کچھ ان پڑھ، جاہل اور بے صلاحیت ملازمین اپنے آپ کو سرکاری دفاتر کے تانا شاہ سمجھ کر کام کرنے کے اوقات میں یا تو آپسی گپ شپ میں مست ہوتے ہیں یا پھر اپنے موبائل فون کے اسکرین میں گُھسے ہوئے ہوتے ہیں اور اس بات کی بلکل بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں کہ کوئی بندہ اُنکے سامنے ایک آدھے گھنٹے سے کھڑا کسی کام کیلئے آیا ہے اور سرکار نے اِن ملازمین کو عوام کی خدمت، انکی سہولیات اور انکے مسائل کا حل نکالنے کیلئے وہاں تعینات کیا ہے۔ اب اگر کبھی کبھار ایسے ملازمین میں کوئی ایک ادھا ملازم گپ شپ سے تنگ آکر یا پھر اپنے موبائل فون سے بُور ہوکر شوق کی خاطر وہاں آئے کسی انسان کا کوئی مسلہ حل کرنے کیلئے تیار بھی ہوتا ہے تو اسکا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے وہ اُس انسان پر کوئی احسان کرتا ہے اور اُسکے تیوَر اتنے ڈراونے ہوتے ہے کہ بندہ دوسری بات کرنے سے اجتناب ہی کرتا ہے اور اکثر بیچارے سادہ لوح انسان خوف وہراس کی وجہ سے اپنے شک و شبہات اور باقی سوالات پوچھنے سے احتراز ہی کرتے ہیں۔ سرکاری دفتر میں تقرری کے بعد اکثر ملازمین اس بات کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں کہ عوام کے تئیں اُنکے کچھ فرائض بھی ہے اور کچھ زمہ دایاں بھی۔ بیشتر ملازمین اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ان کی تقرری لوگوں کی سہولیات کیلئے کی گئی ہے نا کہ ان کو اپنی تانا شاہی دکھانے کیلئے۔ ایک سرکاری دفتر یا ادارے میں داخل ہوتے ہی ایک عام آدمی کا سامنا سب سے پہلے وہاں کے سب سے چھوٹے اور چوتھے درجے کے ملازم سے ہوتا ہے مگر اُن میں سے اکثر ملازمین اپنے آپ کو یہ جھوٹی تسلی دینے کیلئے کہ وہ محکمہ کے حاکمِ کُل ہے، بلاوجہ لوگوں پر اپنا رُوب جماتے ہیں اور ان کے ساتھ بڑی بد تمیزی سے پیش آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شرافت اور نرم طبیعت ہر جگہ انسان کیلئے عزت کا باعث بنتی ہے لیکن موجودہ صورتحال دیکھ کر اس قول کے ‘ہر جگہ’ میں سے سرکاری دفاتر اور اداروں کو نکالنے کی نوبت آگئی ہے کیونکہ وہاں ایک انسان کی شرافت اور نرم طبیعت کو اُسکی سادگی، پسماندگی، ناخواندگی اور بیوقوفی سمجھکر اُسکے ساتھ بہت ہی بُرا، بے ادبانہ اور سخت رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔
اگرچہ اس مضمون میں سرکاری دفاتر اور اداروں کے بیشتر ملازمین کا منفی پہلو غالب رہا ہے لیکن اس بات سے بالکل بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ آج کے دور میں بھی بہت سارے ملازمین اپنے فرائض اور اپنی ذمہ داریاں بڑی ایمانداری، خوش اسلوبی اور خوش اخلاقی سے انجام دیتے ہیں۔ وہ اپنے فرائض سے بخوبی واقف ہیں اور اپنے دفاتر میں عوام کی ہر ممکن مدد کرتے ہوئے ان کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آتے ہیں۔ لیکن جب چند ہیرے بہت ساری کیچڑ میں پھنس جاتے ہیں تو انکی چمک دھیمی اور دُھندلی پڑجاتی ہے اور پھر وہ نظر نہیں آتے ہیں۔ بلکل ایسے ہی سرکاری دفاتر کے یہ خوددار، باصلاحیت اور ایماندار ملازمین کی چمک بھی دھیمی پڑگئی ہے اور وہ بھی بدنام ہوگئے ہیں۔ مضمون کے آخر میں یہ بات کہنی ضروری ہے کہ ایک انسان چاہے کسی بھی شعبہ کے ساتھ وابستہ کیوں نہ ہو، کسی بھی عُہدے پر فائز کیوں نہ ہو، اُس پر چاہے کتنی بھی نگرانی کیوں نہ رکھی جائے، جب تک اُس کے دل میں خوفِ خدا نہ ہوگا اور اُسکا ضمیر زندہ نہ ہوگا وہ اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض کو پوری ایمانداری اور مکمل طور پر انجام نہیں دے سکتا ہے۔ لہذا ہر ذِی حس انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم اور اخلاقیات سے بھی روشناس کروائے تاکہ کل مستقبل میں اُسکے بچے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو ایمانداری اور خوش اخلاقی سے نبھائے اور اِسکے ساتھ ساتھ ہر ایک سرکاری ملازم کو چاہیے کہ وہ اس بات کو ذہن نشین کرے کہ کل قیامت کے روز ہر انسان کو اپنے اعمال کیلۓ جوابدہ ہونا ہے اور وہاں ہر ایک اعمال کی پُرسِش ہوگی، لہذا رُوزِ محشر کے دن شرمندگی سے بچنے کیلئے اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے نبھانا اور عوام کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آنا بہت ہی لازمی ہے۔