بہت جلد قائد چلے گئے اور دوسرے متذبذب مہم جو آگئے اور توقع کے عین مطابق سمت تراشی کا کام ہونے لگا،نئے ترانے لکھے گئے،جن کے بارے میں یقین تھا کہ اُن کے عقائد اور نقطہ نظر نئی اسلامی مملکت کےاہداف میں خلل ڈالیں گے اُن کی مشکیں کس دی گئیں۔
تحریر: مجاہد حسین
بے سمتی کے سفر کے بارے میں ہم ہمیشہ شکوہ کناں رہے ہیں کہ ہماری کوئی سمت نہیں۔تقسیم کے فوری بعد نظریے اور مذہب کے مستریوں نے اپنے اوزار نکالے اور کراچی میں قائم دارلخلافہ کے سامنے لگے بیری کے درخت کے ساتھ ٹانگ دئیے۔ان مستریوں کی فوری پریشانی اپنی دھن کے پکے جناح تھے جن کی صحت کے بارے میں بعض اوقات افوائیں اُڑائی جاتیں لیکن اصل حقیقت سے کوئی واقف نہیں تھا اور ابھی تک خفیہ والے بھی اتنے جدید اور مہم جو نہیں ہوئے تھے کہ قائد کی باقی ماندہ زندگی کے بارے میں کوئی مناسب اندازہ لگاسکتے۔اس صورت میں انتظار بہتر تھا اور سب سے اہم مرحلہ اُن مستریوں کو ہوشیار رکھنا تھا جو نئی ریاست کے ختنے سے لے کر باقی ماندہ حلیے وغیرہ کی شرعی مرمت کے طلبگار تھے۔بہت جلد قائد چلے گئے اور دوسرے متذبذب مہم جو آگئے اور توقع کے عین مطابق سمت تراشی کا کام ہونے لگا،نئے ترانے لکھے گئے،جن کے بارے میں یقین تھا کہ اُن کے عقائد اور نقطہ نظر نئی اسلامی مملکت کےاہداف میں خلل ڈالیں گے اُن کی مشکیں کس دی گئیں۔سمت تراشی اور حفط ماتقدم کے طور پر مشکیں کسنے کا یہ عمل اس قدر پسندیدہ اور مرغوب ہوا کہ آج تک جاری ہے نہ سمت ہی تراشی جاسکی ہے نہ مشکیں پوری طرح کسی جاسکی ہیں،لیکن اس دوران ریاست قطع و برید کے لاتعداد مراحل سے گزر چکی ہے،نظریہ ساز آج بھی اوزار کندھوں پر لٹکائے پھرتے نظر آتے ہیں۔مشکیں کسنے والے اپنی اپنی باری پر آتے ہیں اپنے حصے کی مشکیں کستے ہیں اور چلتے بنتے ہیں۔نہ کوئی حکومت آج تک کسی کو پسند آسکی ہے نہ نظریہ درست ہوسکا ہے اور نہ ہی مشکیں کسنے والے تھکے ہیں،یہ سفر جاری ہے اور لگتا ہے کہ ابھی مزید جاری رہے گا۔