پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن میں کام کررہے انجینئروں نے پریس کانفرنس بلاتے ہوئے احتجاج کیا۔ میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اپنے بیان میں شدید ناراضگی کا اظہار کیا ۔ اس حوالے سے معلوم ہوا کہ کارپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹر نے کچھ ملازموں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ناشائستہ زبان استعمال کی ۔ انجینئر یونین کے کئی لیڈروں نے جمعرات کو سرینگر میں منعقدہ اپنی پریس کانفرنس میں اس طرح کے رویے کو ناقابل برداشت قرار دیا اور متعلقہ آفیسر سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ۔ میڈیا کے نمائندوں کے سامنے واقعے کی تفصیل لاتے ہوئے یونین لیڈروں نے اس طرح کے رویے کو ناقابل برداشت قرار دیا اور واضح کیا کہ اس طرح کے آفیسر اپنے رویے میں تبدیلی نہ لائیں تو ملازموں کا بد دل ہونا یقینی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے سینئر ملازموں کے ساتھ غیر مہذب رویہ اختیار کرنا جنہوں نے اپنی عمر کا بیشتر عرصہ عوامی خدمت میں صرف کیا کسی طور برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ یونین کے لیڈروں نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ملوث آفیسر کو اپنی روش بدلنے کا مشورہ دیا ۔
انجینئرزیونین کے لیڈروں کی طرف سے پریس کانفرنس میں ناشائستہ زبان کے استعمال پر احتجاج بہت ہی اہم واقعہ ہے ۔ پچھلے تین سالوں کے دوران یہ پہلا موقع ہے جب سرکاری ملازم اس طرح کے رویے کے خلاف سامنے آگئے اور اس کی مزمت کی ۔ پچھلے تین سالوں کے دوران پنجوں ، سرپنجوں اور دوسرے بہت سے الٹے سیدھے لوگوں نے ملازموں کے ساتھ غیر شائستہ رویہ اختیار کیا ۔ لیکن کسی نے بھی بروقت زبان کھولنے کی جرات نہیں کی ۔ آج پہلی بار یونین لیڈروں نے اپنے ملازم ساتھیوں کی حمایت میں آواز اٹھاکر پریس کے نمائندوں کے سامنے بے عزتی کے خلاف زبردست طریقے سے احتجاج کیا ۔ اس دوران یہ بات سامنے آگئی کہ کئی لوگوں نے ملازموں کے خلاف زبان درازی اپنا روزمرہ کا معمول بنایا ہے ۔ خاص طور سے ایسے آفیسر جو حادثاتی طور اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے کسی کو خاطر میں لانے کے روا دار نہیں ۔ انتظامیہ کے کلیدی عہدوں پر پہنچنے والے یہ افراد کل تک کسی دفتر میں چپراسی ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے ۔ حالات میں اچانک تبدیلی نے انہیں پورے سیاہ و سفید کا مالک بنادیا ۔ درج فہرست ذاتوں سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر یہ لوگ قابل اور ذہین نوجوانوں سے آگے نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔ اس کے بعد انہیں اپنا ماضی یاد رہا نہ اپنی حیثیت کاکوئی ادراک ہے ۔ ایسے لوگوں کی ذہنیت بدلی ہے نہ یہ اپنی زبان پر قابو رکھ پاتے ہیں ۔ یہ اپنے آپ کو ریاست کا مالک خیال کرکے جو من میں آتا ہے کردیتے ہیں ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک ایسے زمانے میں جبکہ ریاست میں ملی ٹنسی کی وجہ سے سرکار کی بالادستی ختم ہوگئی تھی بجلی محکمے نے اس کا بھرم قائم رکھا اور سرکاری عملداری کو بحال رکھنے میں کلیدی رول ادا کیا ۔ اس دور میں جبکہ دکان بیشتر عرصے بند رہتے تھے ۔ ٹریفک سڑکوں سے غائب ہوگیا تھا اور اسکول مہینے میں دو چار روز ہی کھلتے تھے ۔ محکمہ بجلی کے ملازموں نے اپنا دن رات ایک کرکے سرکاری نظام قائم رکھنے کی کامیاب کوشش کی ۔ اس کا معقول معاوضہ دینے کے بجائے اب کچھ خود غرض عناصر انہیں لتاڑنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بجلی محکمے کے انجینئروں کی صرف عوام پر مہربانی نہیں کہ انہوں نے سخت مشکل حالات میں بجلی سپلائی بحال رکھی بلکہ ایسے موسم میں جبکہ بیشتر سرکاری آفیسر وادی سے بھاگ کر صحت افزا مقامات میں پناہ لئے ہوتے ہیں یہی کچھ گنے چنے ملازم بجلی کا نظام بحال رکھنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔ ایسی کوششوں کے دوران ان کے درجنوں ساتھی بجلی کرنٹ لگنے سے موت کی آغوش میں چلے گئے اور کئی ایک ناکارہ ہوکر گھروں میں بیٹھے ہیں ۔ ان حقائق کو نظر انداز کرکے کسی دیانت دار ملازم کے خلاف غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنا بدقسمتی کی بات ہے ۔ اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ شریف اور معزز گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ایسے ملازموں کے سروں پر اس طرح کے لوگ براجمان ہیں جنہیں عزت ، دیانت اور شائستگی چھوکر بھی نہیں گزری ہے ۔ ایسے گھروں سے آئے لوگ جہاں گالم گلوچ اور دھکم پیل روز کا معمول ہے ۔ غیر تربیت یافتہ کنبوں سے آنے والے لوگ آج بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ کر معزز گھرانوں کے افراد کو کام کرنے کے طریقے سکھا رہے ہیں ۔ انہیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ شریف طبقوں کے نوجوانوں کو سبق پڑھانا ان کے بس کی بات نہیں ۔ اس حوالے سے یہ کوئی ا چنبھے کی بات نہیں کہ پوری پابندی سے ڈیوٹی دینے والے کسی ملازم کو غیر شائستہ قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑے ۔ ان چیزوں سے پست ہمت ہوکر عوامی خدمت سے پیچھے ہٹنا صحیح نہیں ۔ بلکہ زیادہ محنت کی ضرورت ہے ۔ موجودہ انتظامیہ یقینی طور اس بات سے واقف ہے کہ فیلڈ میں کام کرنے والے ملازم ہی ان کا اصل سرمایہ ہیں ۔
