تحریر:عبدالمعین انصاری
الحمد اللہ پارسیوں کی اوستا کا ترجمہ کے بعد رگ وید کا اردو ترجمہ کرلیا ہے اور اب میں اس کی تدوین میں مصروف ہوں ۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ یہ کتابیں اردو میں منتقل ہوگئیں ہیں ۔
رگ وید دنیا کی قدیم ترین مذہبی کتاب ہے ۔ اس کے بارے میں اکثر محقیقین کا خیال ہے کہ یہ پندرہ سو قبل مسیح سے لے کر پانچ سو مسیح کے درمیان لکھی گئی ہے ۔ تاہم بعض نے اس سے اختلاف کیا ہے ۔ مثلاً رومیلا ٹھاپر کا خیال ہے کہ ۱۰۰۰ ق م تک لکھا جاچکا تھا ۔ کوسامبی ۵۰۰ا ق م بتاتا ہے ۔ جوشی کا خیال ہے کہ رگ وید پانچ سو سال کے عرصہ میں لکھا گیا تھا اور اس کا آغاز تصنیف ۱۵۰۰ ق م میں شروع ہوا تھا اور ۱۰۰۰ ق م میں مکمل ہوا ۔ ۔۔۔
اندرونی شواہد اگرچہ کم یقینی ہوں ٰلیکن زیادہ تسلی بخش ہوتے ہیں اور یہ یقینی طور پر ہندوستان کے دوسرے ادب سے قدیم ہے ۔ اس کے ساتھ اس کی زبان ہندوستان کے دوسرے لکھے گے متنوں کی زبان سے کہیں زیادہ قدیم ہے اور اس کا مواد اس سادہ ترین شکل سے نکلا ہے ۔ جس میں ہر سطر میں حرفوں کی تعداد تفریق کی علامت ہے اور نثر سے منترا کا ۔ اس سے قیاس کرنا ناممکن ہے کہ بعد کی لکھی گئی سمہتائیں 800 قبل مسیح کے بعد کی ہیں ۔ اس کی تدوین کے دوران زبان اور فکر میں ترقی ہوئی ۔ اگرچہ شاعر کو اظہار کی قوت ناکام کرتی ہے ۔
رگ وید اس لیے دنیا کی قدیم ترین ادبی یادگاروں میں اس کا موازنہ الیاڈIliad اور اوڈیسی Odyssey سے کیا جاتا ہے اور اس کی عملی طور پر صرف مذہبی خصوصیت ہے اور آریائی قبائل کے مذہب کی تفصیل اسے منفرد بناتی ہے ۔ ان قبائل کے بارے میں ہمیں نسبتاً بہت کم معلومات ہیں ۔ یہ موروثی حکمرانوں کے ماتحت چھوٹی چھوٹی سلطنتوں میں بٹے ہوئے تھے اور اکثر آپس میں جنگ میں مصروف رہتے تھے ۔ سیاہ کھالیں پہنے شاید ان کے سینوں پر زرہ اور دھاتی تانبے کے نیزوں اور جنگی کلہاڑیوں کے نتیجے میں یا بعد میں لوہے کی کمان کے ساتھ ان کے اہم جنگی ہتھیار تھے ۔ وہ صرف اپنے جانور نہیں چراتے تھے بلکہ زراعت کرتے تھے ۔ لیکن شہری زندگی کا کوئی واضح نشان نہیں ملتا ہے ۔ وہ قلعے جن کے وہ اور آبائی باشندے دونوں مالک تھے ، بلاشبہ پناہ گاہوں کے علاوہ کچھ نہیں تھے ۔ جن کی مٹی یا لکڑی کی دیواریں تھیں ۔ جنگ کے وقت اور سیلاب کے وقت دونوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ ابھی تک بڑی سلطنتیں نمودار ہوئی تھیں ۔ قبائل کا اتحاد جیسے کہ مشہور پانچ قبائل انو پتکرو ، دروہیو ، توروا اور یادو ہیں اور ہم دس راجاؤں کی لڑائی کے بارے میں بھی سنتے ہیں ۔ جو بعد میں مہابھارت کی بنیاد بنا ۔ اگرچہ یہ جنگ کے لیے ایک ڈھیلا ڈھالا وقتی اتحاد تھا ۔ دوسری طرف قبیلوں کے درمیان ثقافت اور مذہب کی ایک عظیم یکسانیت رگ وید کے شواہد سے نتیجہ اخذکرنے لیے اور ویدی لوگوں کے مخصوص کردار کی تصدیق کے لیے جو کہ قبائلیوں سے الگ ہے ۔
یہ مجموعہ وسیع علاقے میں طویل عرصہ میں لکھا گیا ہوگا ۔ کیونکہ اس کے بھجنوں کے مصنیفین گوتم ، وِیامِترا ، وامادیو ، اتری ، بھاردواج اور وِسِستھ کے خاندانوں اور دوسروں نے لکھے ہیں ۔ یا کم از کم زیادہ تر حصے ان ہستیوں نے نہیں بلکہ ان خاندانوں سے تعلق کا دعوی کرتے ہیں اور ان کی تدوین میں خاندانی کردار واضح ہے ۔ اس کی زبان مختلف پہلوؤں کی ترقی کو ظاہر کرتی ہے ، وقفہ نایاب ہو جاتا ہے ۔ پرانے الفاظ غائب ہو جاتے ہیں ۔ نئے الفاظ اور نئی شکلیں مل جاتی ہیں ۔ اسی سے مذہب کی نئی خصوصیات کی نشادہی ہوتی ہے ۔ مقبول دیوی غائب ہوجاتی ہے ۔ سب سے طاقتور دیوتا ورون اپنا اخلاقی اور روحانی مقام کھو بیٹھا ہے ۔ جب کہ اندرا اور اگنی دیوتا کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ مذہبی فکر کی نشوونما اور کائناتی فلسفہ بھجنوں میں بھی ظاہر ہوتا ہے اور دیوتاؤں کی تقلید اب شادی اور جنازے کا آسان ضابطوں ذکر کیا جاتا ہے ۔ بلاشبہ مذہب میں پیشرفت معاشرے میں پیشرفت کے متوازی ہے ۔ رگ وید میں کسی بھی تاریخی واقعہ کے حوالہ نہیں ہے جس کو ہم تاریخ کہہ سکتے ہوں ۔ اس سلسلے میں بہت قیاس لگائے گئے جنہیں طویل بحث کے بعد رد کردیا گیا اور اس بارے میں پروفیسر کینٹھ کی کتاب ’ویدوں اور اپ نے شدوں کا فلسفہ اور مذہب‘ جس کا میں نے ترجمہ کیا ہے میں دی گئی ہے ۔
اوستا اور دوسری زبانیں جو انڈویورپین خاندان بناتی ہیں ۔ وید کی زبان بنیادی طور پر ایرانی سے مشابہت رکھتی ہے ۔ گو زرتشت کی (660-583) ق م مانا گیا ہے ۔اس سے زیادہ تاریخ بیان کرنا قیاس آرائیوں سے کام لینا ہے ، جن کے لیے کوئی بہت زیادہ ٹھوس ثبوت نہیں ہے ۔ مگر اس ہندوستانیوں اور ایرانیوں کا طویل تعلق نمایاں ہے ۔ کیوں کے بہت سے ایرانی نام اس میں ملتے ہیں ۔ اس لییے خیال ہے کہ چھٹی کتاب اراکوشیا (قندھار میں لکھی گئی تھی ۔ جس نے اوستا کا اردو ترجمہ پڑھا ہے اسے ان دونوں میں عجیب مطابقت نظر آتی ہے ۔ گو وید کا ادبی لحاظ سے مقام بلند اور وید کا پست ہے ۔ ہیں مگر اوستا اور وید کے کرداروں اور ناموں میں حیرت انگیز مطابقت ہے ۔ ان میں وہی نام کردار اور نام ہیں ۔ گو ان کی تفیلات بدل گئیں ہیں یا کردار کا مقام بدل گیا ہے ۔ دونوں میں گائے اور سوما یا ہوما کو تقدس حاصل ہے ۔ اگر فرق ہے تو صرف یہ ہے کہ اوستا اہورا نے تمام خداؤں کو اپنی بالادستی میں لے آیا ۔ جب کے وید میں ہر دیوتا چھوٹا ہوکہ بڑا اپنی آزادانہ حثیت رکھتا ہے اور صرف یہی فرق دونوں مذہبوں میں ہے ۔ ہم یہ کہہ سکتے ان دونوں مذہبوں کے دمیان مطابقت اور فرق اتنا ہے جتنا کہ مسلمانوں میں شیعہ اور سنی فرقوں میں ہے ۔
رگ وید کے زمانے میں آریائی مذہب نہایت سادہ تھا ۔ رفتہ رفتہ مذہبی فکر و رسومات دونوں پیچیدہ اور مبسوط ہوگئیں ۔ موخر ویدی دور میں شمسی اور مجرد دیوتاؤں کی اہمیت بڑھ گئی ۔ وشنو سب سے نمایاں دیوتا ہوگیا ، شمسی دیوتاؤں کی اہمیت میں اضافہ کا مطلب ہے اخلاقی اصول میں اضافہ ۔ اس میں بہت سے دیوتاؤں ، آبا و اجداد سے پرستش کرتے ہوئے ان سے دولت ، اولاد اور دشمنوں کو ختم کرنے کی درخواست کی گئی ہے ۔
رگ وید میں روحانی کےساتھ ساتھ مادی نقطہ نظر صاف نظر آتا ہے اور اس میں سمسار یا آواگون کا نظریہ مفقود ہے ۔ زندگی اور موت کوئی بندھن نہیں جس سے مُکش یا مکتی حاصل کرنے کی ضرورت ہو ۔ رگ وید زندگی کو قید خانہ قرار نہیں دیتا ہے ۔ بلکہ عوام زندگی ، طوالت ، خوشحالی ، جنگ میں فتح اور کثرت اولاد کرتے نظر آتے ہیں ۔ بعد میں جو عینی تضیے کی بنیادی چیزیں بن گئیں ۔ مثلاً دھیان ، یوگ ، کرم ، مُکش ، سمساد اہنسا کا رگ وید میں کوئی سراغ نہیں ملتا ہے
ابتدا میں رگ وید اگرچہ لکھی نہیں جاتی تھی ، لیکن قدیم زمانے سے اس کی تعلیم مذہبی مدارس میں سرگرمی سے جاری تھی اور لوگ اس کو حفظ کرلیا کرتے تھے اور تخریف کے خوف سے ہر اشلوک اور لفظ اور ہر جزو کو گن لیا کرلتے تھے ۔ رگ وید میں شبدوں (الفاظوں) کی تعداد 153826تھی اور حروف کی تعداد 432700تھے ۔ اشلوکوں کی تعداد میں اختلاف ہے جو 10402 سے 10622 تک تھے ۔ کیوں کہ ویدی زبان جس میں وید لکھی گئی متروک ہو رہی تھی اور اس زبان کو سمجھنے والے بہت کم رہ گئے تھے اور بشتر لوگ اس سمجھے بغیر یاد رکھنے کی کوشش کرتے تھے ۔ لہذا اکثر یہ ہوتا ہے کہ بجائے اصل لفظ کے اس کا کوئی ہم معنی اور ہم آواز لفظ داخل کر دیتے اور غلطیوں کو درست کرنے کوئی تحریری کتاب موجود نہ تھی کہ جس مقابلہ یا درستگی ہوسکتی ۔ اگرچہ بعض اختلافات بھی ہیں اس لیے رگ وید کے مختلف نسخے ہیں مگر یہ اختلافات محض جزوی ہیں ۔ مگر باوجود اس کے بحثیت مجموعی کتاب مزکورہ میں تخریب بہت کم ہوئی ہے ۔
رگ وید کے منتر ، مناجات اور حمد پر مشتمل ہے ۔ مگر ان میں جگہ جگہ رنگین خرافات بھی ملتی ہیں ۔ ان منتروں سے ان کی ارتقائی حالت ، مقاصد ، سیاسی تنظیم اور دشمنوں کے تمدنی مدارج پر کافی روشنی پڑتی ہے ۔ ان میں بہت سے معبودوں کا نام لے کر دولت و شہرت طلب کی گئی ہے اور دشمنوں کے مقابلے میں اپنی فتح اور کامرانی کی دعا کی گئی ہے ۔
’’اے اگنی ہمارے دشمنوں کو جلادے ۔ اے وارن ہم سے کون سی خطا سرز ہوئی جس کی وجہ سے تو اپنے پجاریوں کو ہلاک کرنے کے درپہ ہے ۔ ہم سے جو خطا سرز ہوئی وہ شرب پینے ، جوا کھیلنے اور سخت ضرورت کو رفع کرنے کی غرض سے ہوئی ہے ۔ اے وارُن ہم نے برا کیا ہم پر رحم کر ، ہمارے باپوں کی خطاؤں کو معاف کر ہمارے دشمنوں کو اس مدح سرائی کے صلہ میں ہلاک کر ، کالے چمڑے والوں کو غارت کر ، جس کے بدلے ہم نے تیرے لیے قرباییاں دیتے ہیں ۔ جیسے بیج دینے والا سانڈ گایوں میں جفت ہونے کے اپنی طاقت سے پہنچتا ہے ۔