حال ہی میں دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن پورے جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا۔ اس موقع پر بہت سے پروگرام منعقد ہوئے، مباحثے ہوئے، اخبارات میں بڑے بڑے مضامین شائع ہوئے، ٹی وی اور ریڈیو پر بڑی بڑی باتیں کی گئیں۔ جہاں یہ بتایا گیا کہ اگر انسان اس زمین کو رہنے کے قابل بنانا چاہتا ہے تو اسے ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی کوئی چیز تعمیر نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا انسان واقعی پیسے کے لالچ میں ایسی چیزوں کی تیاری بند کرنا چاہتا ہے جو اس کی زندگی اور ماحول کے لیے نقصان دہ ہوں؟دراصل انسان اپنی جان کو خود خطرے میں ڈالتے ہوئے کئی طرح کی ایجادات کر رہا ہے جو ایک وقت ضرور انسانی جان کو نقصان دیں گی۔انہی میں سے ایک انسان کی بنائی گئی چیز جو ہر روز استعمال میں آتی ہے اورہر جگہ دیکھنے کو ملتی ہے وہ ہے”پلاسٹک“۔یہ بھی انسانیت کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔حالانکہ پلاسٹک پر اس وقت قابو پانے کیلئے کئی طرح کے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اور کسی حد تک انسان اس پر قابو پاکر اس کا متبادل ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن پوری طرح سے یہ سماج سے باہر نہیں ہوا ہے اور انسانیت کیلئے یہ ایک خطرے کا الازرم ہے۔ تقریباً تمام پلاسٹک ایسے کیمیکل سے بنے ہیں جو سیارے کو گرم کرنے والے ایندھن (گیس،تیل اور یہاں تک کے کوئلہ) کی پیداوار سے آتے ہیں۔ جلنے والے پلاسٹک سے آب ہوا کو تبا کرنے والی گیس اور زہریلی فضائی آلودگی بھی خارج ہوتی ہے۔پلاسٹک کی آلودگی رہائش گاہوں اور قدرتی عمل کو تبدیل کر سکتی ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں کے مطابق ماحولیاتی نظام کی صلاحیت کو کم کر سکتی ہے،لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔
’آورولڈان ڈاٹا‘ ویب سائٹ کے مطابق پلاسٹک ماحول کو تباہ کرنے میں، زمین کو آلودہ کرنے میں، سمندری اور زمین پررہنے والی زندگی کو نقصان پہنچاتی ہے۔صنعتی ماہرین توقع کرتے ہیں کہ سال 2050 تک ہم آج کے مقابلے میں تین گنا زیادہ پلاسٹک پیدا کر رہے ہوں گے۔یہ اتنا خطرناک ہے کہ اسے گلنے میں 20 سے 500 سال لگ سکتے ہیں۔صرف پلاسٹک کے کچرے سے ہر سال 100 ملین سمندری جانور مر جاتے ہیں۔ سالانہ 100,000 سمندری جانور پلاسٹک میں پھنس جانے سے مر جاتے ہیں۔انسان مجموعی طور پر تقریباً 201ملین پلاسٹک کی بوتلیں ہر منٹ استعمال کرتا ہیں۔تقریباً 91 فیصد پلاسٹک ری سائیکل نہی ہوتا جس کی نتیجے میں وہ زمین پرمختلف قسم کی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔ ماحولیات پر کام کرنے والی ایک ویب سائٹ ”ریکل ڈاٹ کام“ کے مطابق ہندوستان میں پلاسٹک کی بڑھتی تعداد بتاتی ہے کہ ہندوستان 25,490 فی کس کے ساتھ سالانہ 3.5 ملین ٹن پلاسٹک پیدا کرتا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں ہندوستان میں پلاسٹک کے کچرے کی پیداوار میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان کی پلاسٹک کی مانگ 2021-22 میں 20.89 ملین ٹن تک پہنچی اور 2023 کے آخر تک 22 ملین ٹن تک بڑھنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ سب سے بڑا مسئلہ تو پلاسٹک کا غیر اکٹھا کیا جانے والا فضلہ ہے، جس کا 40 فیصد حصہ لینڈ فلز میں پھینکا جاتا ہے۔ جس سے آبی ذخائر بند ہوجاتے ہیں اور گلیوں کو آلودہ کرتے ہیں۔ پلاسٹک کا یہ غیر منظم فضلہ کئی بارجانوروں میں مشکلات پیدا کرتا ہے۔ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ پلاسٹک سائیکل چند فیصد ہی ہوتا ہے باقی کا رہ جاتا ہے۔ جو کئی بیماریوں اور پریشانیوں کا باعث بنتا ہے کیونکہ سمندری پلاسٹک کا فضلہ بھی ہندوستان میں ایک سنگین مسئلہ ہے۔اس سلسلے میں رفتار چوہان نامی ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ ہمیں معلوم ہے پلاسٹک خطرناک ہے لیکن ہم پھر بھی اپنی زندگی میں پلاسٹک کا سوچے سمجھے بغیر استعمال کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہمیں معلوم بھی ہے کہ پلاسٹک زمین پر اور پانی میں بھی حیات کو متاثر کر رہا ہے لیکن ہم پلاسٹک کے استعمال میں کمی لانے کی نہیں سوچ رہے ہیں۔ عالمی سطح پر پلاسٹک کے استعمال پر قابو پانے کیلئے اقدامات لازمی ہیں تاکہ ماحولیات کا تحفظ ہو سکے۔اسی ضمن میں ایک مقامی دکاندار شعیب کاظمی کا کہنا ہے کہ میری دوکان میں رکھے ہوئے سامان پر اگر نظردوڑائی جائے تو تقریباً ہر ایک شے میں پلاسٹک کا نمایاں استعمال ہوا ہے جو پلاسٹک کی بڑھتی تعداد کو بخوبی ظاہر کرتا ہے۔انہوں نے کہاکہ جب اس دکان کا سارا پلاسٹک کسی کام کا نہ رہے گا تویہ تو جلایا جائے گا یا پانی میں بہا دیا جائے گاجو کہیں نہ کہیں آلودگی کا باعث بنے گا۔
اس سلسلے میں ایک اور طالب علم اعجاز احمدکا کہنا ہے آج ہم کہیں سے بھی زمین کی کھدائی کر لیں جہاں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا وہاں سے بھی پلاسٹک کی کوئی نے کوئیبنی چیزمل جائے گی جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہیں کی کس قدر پلاسٹک زمین کو آلودہ کر چکا ہے۔قارئین پلاسٹک کے مضر اثرات اور نقصانات سے بچنے کیلئے سرکار کو سخت پالیسیوں کے ساتھ آنا چاہئے اور پلاسٹک کو ٹھانے لگانے کے نِت نئے انداز اپنانے چاہئے تاکہ اس کے مضر اثرات سے حیاتیات کو بچایا جاسکے۔وہیں پلاسٹک کی روک تھام کے سلسلے میں بنائے گئے قوانین پرسختی سے عمل کروانے کیلئے انتظامیہ کوٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پلاسٹک کے کاروبار پر روک لگ سکے۔(چرخہ فیچرس)