
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ انسانی زندگی سے زیادہ قیمتی اس دنیا میں کوئی بھی شے نہیں۔ لیکن افسوس کہ انسان کی زندگی کو آج کئی طرح سے ہلکا لیا جا رہا ہے۔ حد تو اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ایک طرف اگر کوئی انسان کسی حادثے کا شکارہوا ہے، یعنی کہیں گرا ہو یا اس کی جان کو کوئی خطرہ ہے تو وہیں دوسری طرف کئی راہگیر نظر انداز کر کے گزر جاتے ہیں، کہیں تو قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے بھی اس مسئلہ میں تاخیر کر دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ سب چیزیں مرمت ہو سکتی ہیں۔مگر ایک انسان کی زندگی ختم ہو کر واپس نہیں آسکتی۔لہٰذا،اس پہلو پر ہم سب کو گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔اس میں بھی کوئی شک کی بات نہیں کہ حکومت نے انسانی زندگی اور اپنے شہریوں کوہر طرح کی حفاظت فراہم کرنے کیلئے کئی قوانین بنائے ہیں، جن پر عمل درآمدگی کیلئے با ضابطہ طور پرکئی ادارے بھی قائم کئے ہیں۔مگر کیا وہ ادارے اپنا کام دلجوئی سے کر رہے ہیں؟ کیا انسانی زندگی کی قدر و قیمت جان کر ان بے قدرے لوگوں پرشکنجہ کسنے میں پہل کرتے ہیں جن کی وجہ سے آئے روز یہ حادثات پیش آتے ہیں؟ اس سلسلے میں سماجی کارکن محمد رفیع ساگر کہتے ہیں کہ ”حد تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک گاڑی جس میں محض دس مسافر بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے اس پر پندرہ یا اس سے بھی زائد مسافر لاد لئے جاتے ہیں اور ہمارے عوام بھی بڑی خوشی سے سوار ہو جاتی ہے، جس سے ڈرائیوروں کو اور شے ملتی ہے اور ان کی لالچ مزید بڑھنے لگتی ہے۔ تاہم اسی لاپرواہی کی وجہ ہر دن کوئی نہ کوئی حادثہ سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔میں اگرجموں و کشمیر کے خطہ چناب کی ہی بات کروں، جہاں تمام گاوئں سے شہر جانے والی گاڑیاں اورلوڈ ہوتی ہے،وہی روز بچوں کو کالج کی پڑھائی کے لئے قصبہ سے شہر کا سفر کرنا پڑتا ہے، جبکہ اس سفر کے دوران بچپن کی تعلیم سے لیکر کالج تک بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اس دوران ہمیشہ گاڑیاں اورلوڈ ہو کر کے ہی اپنے سفر کیلئے روانہ ہوتی ہیں۔جو بہت ہی خطرناک اور غیر قانونی ہے۔“
وہیں گندو کے رہنے والے طالب علم محمد اکرم کہتے ہیں کہ”چند مزید پیسے کمانے کی لالچ میں ڈرائیور مسافروں کی جان کی پرواہ بالکل نہیں کرتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ بدعنوانی ہے کیونکہ جب گاڑیوں کی چیکنگ کیلئے پولیس لگتی ہے تو یہ خبر پہلے ہی ڈرائیور کو پتہ چل جاتا ہے اور وہ آدھے راستے میں ہی سواریاں اُتار دیتا ہے اور جب چیکنگ ہو جاتی ہے تو پھر راستے سے مسافروں کو دوبارہ بیٹھا کر گاڑی اوور لوڈ کرلیتا ہے۔“وہیں اس حوالے سے بھلیسہ کی رہنے والی طالبہ روبینہ اپنے تجربہ اشتراک کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ”وہ بس سے سفر کرتی ہیں اور روز بس اور لوڈ ہو کر چلتی ہے، جسکی وجہ سے آئے دن کوئی نہ کوئی حادثہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اورلوڈ ہونے کی وجہ سے سڑک بھی ٹوٹ جاتی ہے اورمزید حادثوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ہم اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر سفر کرنے کو مجبورہیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی اور آپشن بھی نہیں ہے۔“تاہم ان سب باتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خطہ چناب کے ہر گاوئں کی یہی کہانی ہے۔ وہیں جب ہم نے اس متعلق ایک تجربہ کار استاد سے حادثات کو لیکر جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بھی بتایا کہ”گاڑیاں بہت اور لوڈکی جاتی ہیں۔ان میں روز بچے بھی اسکول آتے ہیں جو زیادہ تر کھڑے ہوکرسفر کر تے ہیں۔جو بہت ہی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔وہی دوسری جانب مختلف علاقوں کی سڑکوں کی مرمت عرصہ دراز سے نہیں ہوئی ہے۔اگرچہ ان سڑکوں کی مرمت کی جائے تو شاید اس طرح کے حادثات پر بہت حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ساتھ ہی خطہ چناب میں جتنی بھی کمپنیاں ہیں ان میں 90 فیصدگاڑیاں ایسی ہیں جو بہت پرانی ہوچکی ہیں۔جو حادثے کا ایک بڑا کارن بنتے ہیں۔ تاہم اس پر بھی حکومت کو غور و فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وہیں اگر ان تمام باتوں اور اے آر ٹی او سے ہوئی گفت و شنید پر غور و فکر کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان حادثات کو کم کرنے کیلئے جہاں حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہیں عوام پر بھی ہے۔
ان سوالات کے جواب کیلئے ہم نے محکمہ نقل و حمل کے کام کاج پرایک نظر ڈالتے ہوئے محکمہ سے بھی جاننے کی کوشش کی کہ آخر کیوں آئے روز کوئی نہ کوئی سڑک حادثہ دیکھنے کو ملتے ہیں؟ آخر ترقی کی ان شاہراوئں پر کب تک یہ خونی رقص جاری رہے گا؟ کیا اس کی وجہ کہیں اور لوڈنگ تو نہیں؟اگر ہے تو اس پر قابو کیوں نہیں پا یا جا رہا ہے؟ان سوالوں کے جواب کو لیکر جناب سابقہ آے آر ٹی آؤ ڈوڈہ کلدیپ سے جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ”محکمہ اپنا فرض پوری طرح سے نبھاتا ہے۔اس کے لئے ہم چلان بھی کاٹتے ہیں۔مگر ان مسائل پر عوام کو بھی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔انہیں اورلوڈ ہوئی گاڑی میں نہیں بیٹھنا چاہئے۔ اسکے باوجود بھی محکمہ پوری کوشش کر رہا ہے کہ اورلودڈنگ نہ ہونے دیں۔“وہیں اپنی بات چیت کے دوران انہوں نے گاڑیوں کے کرائے پر بھی بات کی اوراس سلسلہ میں میرے ساتھ کرائے کی ایک فہرست سانجہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام اس متعلق واقف نہیں ہے اور وہ ڈرائیوروں کو چھوٹ دیتی ہے جس کی وجہ سے ڈرائیور اُن سے دوگنا کرایہ بھی لیتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ”او لوڈ گاڑی کو فی سواری 2000روپے تک چلان بھی کیا جا تا ہے۔ مگر افسوس کہ اسکے باوجود بھی گاڑی والے یا ڈرائیور حضرات چند اضافی پیسے کمانے کے چکر میں سینکڑوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں، جسکا نتیجہ ہمیں روز مرہ کی زندگی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔“یہ سچ ہے کہ ذیادہ پیشے کی لالچ میں ڈراؤر اورلوڈنگ کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر وہ اپنی گاڑی پر کس کو بیٹھاتے ہیں؟ظاہر سی بات ہے کہ ان کی گاڑی بھری ہونے کے باوجود ہم بیٹھنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلہ کو اگر باریک بینی سے دیکھا جائے یا اے آر ٹی او صاحب کی باتوں پر غور کیا جائے تو اس سب کے ذمہ دار نہ صرف ڈرائیورہی نہیں ہیں بلکہ عوام بھی ہے۔جس دن عوام اس اورلوڈنگ کے نقصان کو سمجھ کر بھری ہوئی گاڑیوں میں بیٹھنے سے انکار کر دیگی اس دن سے یہ مسئلہ ختم ہونا شرع ہو جائے گا۔(چرخہ فیچرس)
