مرکزی وزیر داخلہ نے قدرتی آفات سے بچائو کے کئی منصوبوں کا اعلان کیا ہے ۔ ملکی سطح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے 8000 کروڑ روپے پر مشتمل کئی اسکیمیں سامنے لائیں ۔ اجلاس میں مختلف ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے وزرا نے شرکت کی ۔ ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے انچارج ان وزرا پر زور دیا گیا کہ قدرتی آفات سے بچائو کے لئے ضروری قدم اٹھائیں جائیں ۔ مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ جو کہ ڈزاسٹر منیجمنٹ کا چارج بھی اپنے پاس رکھتے ہیں نے ایسی تین بڑی اسکیموں کی منصوبہ بندی کا حوالے دیا جن سے ملکی سطح پر کار گر اقدامات کئے جاسکتے ہیں ۔ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ قدرتی آفات سے ہونے والے جانی نقصانات پر قابو پانا ہوگا ۔ اس کا کہنا ہے کہ کسی بھی قدرتی آفت سے جانی نقصان نہیں ہونا چاہئے ۔ قدرتی آفات سے متعلق اداروں نے اس بات کی تعریف کی ہے کہ جانی نقصانات پر قابو پانے کے لئے اقدامات کو ضروری قرار دیا گیا ہے ۔ عوامی حلقوں نے اس بات کی سراہنا کی کہ سرکار عام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لئے صرف زبانی بیانات نہیں دے رہی بلکہ اس کے لئے عملی طور منصوبہ بندی کررہی ہے ۔ وزیرداخلہ نے جن منصوبوں کا ذکر کیا ان سے متعلق کہا جاتا ہے کہ ملک کے عام شہریوں کے لئے بڑے فائدہ مند ہوسکتے ہیں ۔ ان منصوبوں سے غریب عوام کے جان و مال کی حفاظت کو ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔
قدرتی آفات لوگوں کے لئے کئی طرح کے مصائب لے کر آتی ہیں ۔ اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ ایسی آفات سے امیر لوگوں کے بجائے عام شہری خاص طور سے غریبی کی سطح سے نیچے گزر بسر کرنے والے متاثر ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی ان مصائب کی رو میں بہہ کر ضایع ہوجاتی ہے ۔ بلکہ ایسی آفات کے موقعوں پر غریب لوگ ہی موت کا شکار ہوتے ہیں ۔ حال ہی میں ترکیے میں ایک بڑا زلزلہ آیا ۔ دیکھا گیا کہ عام شہری ہی اس کی زد میں آکر جان و مال سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ کشمیر میں بیس سال پہلے شدید زلزلہ آیا ۔ پہاڑی علاقوں میںبسنے والے جو عام لوگ اس سے متاثر ہوئے آج تک بحالی کے منتظر ہیں ۔ ان سے امداد کے جو وعدے کئے گئے تھے پورے نہیں ہوئے ۔ ان کے نام پر امداد ضرور جمع ہوئی لیکن متاثرین تک نہیں پہنچی ۔ اس کے بعد سیلاب آیا جس نے پورے کشمیر کو اپنی زد میں لایا ۔ یہاں بھی غریب اور عام شہری تباہ ہوئے ۔ تین سال پہلے کارونا وائرس نے پوری دنیا کے لئے آفت کا روپ اختیار کیا ۔ وائرس نے غریبوں کو تباہ کرکے چھوڑ دیا ۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ ایسے موقعوں پر بچائو کاروائی صرف سرکار کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ بلکہ عام لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت کئی کام کرنے ہونگے ۔ ایک دوسرے کی مدد کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ بہت سے لوگ رضاکارانہ طور ایسا کرنے کے لئے سامنے آتے ہیں ۔ لیکن بیشتر لوگ سرکار کی امداد اور امدادی ٹیموں پر ہی نظر رکھتے ہیں ۔ اس وجہ سے سرکار کئی سیول ڈپارٹمنٹوں کے علاوہ فوج کو لوگوں کی مدد کے لئے بلانے پر مجبور ہوتی ہے ۔ جو رضاکارانہ تنظیمیں اس نام پر سرکار کو لوٹنے میں پیش پیش ہوتی ہیں ایسے ہر موقعے پر غائب ہوجاتی ہیں ۔وہ لوگ پہلے اپنا بچائو کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس کے بعد اپنے نفع نقصان کی فکر رہتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ باقی دنیا کے مقابلے میں جموں کشمیر میں ایسے موقعوں پرNGOs کوئی مناسب رول ادا کرنے سے قاصر رہتی ہیں ۔ ان کے پاس ایسے موقعوں پر لوگوں کے کام آنے کے آلات موجود ہوتے ہیں نہ ایسے وسائل فراہم ہوتے ہیں کہ مصیبت میں پھنسے لوگوں کی کوئی مدد کرپائیں ۔ ان سے کوئی امدادی کام ماضی میں ہوا نہ اب ایسی کوئی امید کی جاسکتی ہے ۔ زیادہ کام سرکار کوہی کرنا ہوگا ۔ اتنے بڑے منصوبے دوسرے اداروں سے ممکن نہیں ۔ یہ صرف سرکاری ادارے ہیں جو کوئی خاطر خواہ کام انجام دے سکتے ہیں ۔ لوگوں کی امیدیں سرکار اور سرکاری اہلکاروں سے ہی جڑی ہیں ۔ تاہم اس میں سرعت لانے کی ضرورت ہے ۔ کشمیر کے چناب ویلی علاقے میں آئے روز زلزلے آتے ہیں ۔ پچھلے کئی مہینوں سے یہاں لوگ آئے روز کے زلزلوں سے سخت خوف زدہ ہیں ۔ مختلف علاقوں میں موجود ڈیم لوگوں کے لئے تشویش کا باعث بن رہے ہیں ۔ ان کے تحفظ کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔اس تناظر میں ضروری ہے کہ آفات سے بچائو کی ایسی پالیسی بنائی جائے جو صرف امیر لوگوں کے لئے نہ ہو بلکہ غریبوں کے لئے تحفظ کی حامل ہو ۔
