
اقبال نے ایک صدی قبل مسلمانوں سے شکایت کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
اقبال کہہ رہے تھے کہ مسلمانو تمہیں کتاب سے کوئی فیض پہنچنے والا نہیں کیوں کہ تم کتاب پڑھتے تو ہو اسے سمجھتے نہیں ہو۔ اس شعر کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اقبال مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ تمہیں کتاب سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں کیوں کہ تم کتاب پڑھتے تو ہو مگر کتاب پڑھ کر ایک اور کتاب لکھنے کے قابل نہیں ہو۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے اقبال کا یہ شکوہ بہت پرانا ہوگیا ہے اس لیے کہ اب صورت حال یہ ہے کہ ہمارے یہاں کتاب لکھنے والے کیا کتاب پڑھنے والے بھی نایاب ہوگئے ہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اب ہمارے درمیان اخبار اور رسالے پڑھنے والے بھی موجود نہیں۔
مطالعہ زندگی میں کتنا اہم ہے، ہم میں سے اکثر لوگ غور نہیں کرتے۔ اگر مطالعہ اور عمل یا مشق میں سے کسی ایک کو ختم کر دیا جائے تو سیکھنے اور جاننے کا عمل سست ہو جاتا ہے۔ جس طرح کچھ سیکھنے کے لئے پڑھنا اور تجربات سے گزرنا اہم ہے اسی طرح سیکھے اور جانے بغیر دنیا کو نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ ہر چیز کی معرفت اور پہچان علم کی وجہ سے ہوتی ہے، اصل علم وحی کا علم ہے اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے اپنی معرفت، قدرت، احکامات اور تخلیق کائنات کے بارے میں ہمیں قرآن کریم میں بتاتے ہیں کہ میں نے پوری کائنات کوانسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے پیدا کیا ہے۔ دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی اللہ تعالیٰ نے علم میں رکھی ہے، دنیا میں آپ جتنے ترقی یافتہ ممالک دیکھتے ہیں انہوں نے علوم کی وجہ سے ترقی کی ہیں، دنیاوی ترقی کے لیے سائنس، ٹیکنالوجی، معیشت اور صنعت و حرفت کے علوم حاصل کرنا ضروری ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کی ایک تحقیق پڑھی تھی، سائنسدانوں کے مطابق مطالعہ کرنے سے ہمارے جسم میں موجود بیٹا امیلائیڈ پروٹین کا لیول کم ہوتا ہے جس میں اضافہ الزائیمر کی بیماری اور اس کی شدت میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ پڑھنا اور لکھنا نہ صرف معلومات میں اضافے کا باعث ہیں بلکہ اظہار خیال کی صلاحیت میں بھی اضافہ کرتے ہیں، دنیاوی فکروں اور پریشانیوں کو وقتی طور پر بھولنے میں مدد کرتے ہیں، شخصیت میں نکھار لاتے ہیں اور اخلاقیات کو بہتر انداز میں سمجھنے کا ذریعہ ہیں۔ ایک قلمکار کی اعلیٰ اور بہترین تخلیقی صلاحیتوں کی موجودگی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ ایک اچھا قاری یا مطالعہ کرنے والا نہ ہو۔
زمانے کی ترقی نے مطالعے کو بہت آسان اور سستا بنا دیا ہے۔ بہت ساری کتابیں اور تحریریں آن لائن مفت دستیاب ہیں جو ماضی میں پیسہ خرچ کر کے حاصل ہوتی تھیں۔ البتہ آن لائن مطالعہ آنکھوں کے لئے کچھ مسائل بھی پیدا کرتا ہے اور جلد تھکاوٹ کا باعث ہوتا ہے۔ اس لئے ہمارے گھروں یا لائبریریوں میں موجود کتابوں کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق آن لائن مطالعہ کرنے کے لئے کسی اخبار یا ہاتھ میں موجود کتاب کو پڑھنے کی نسبت دس سے تیس فیصد زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آن لائن تحریر کو زیادہ تر افراد پڑھنے کی بجائے سرسری سا دیکھتے ہیں اور بغیر پڑھے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس کا ایک حل آن لائن کتاب کا پرنٹ لے کر مطالعہ کرنا ہے۔
پرانے دور کے دانا کہا کرتے تھے کہ کتابوں کے ساتھ رشتہ جڑے رہنے سے دماغ کی عمر زیادہ ہوتی ہے آج کی نوجوان نسل اس پر عمل نہیں کرتی انکے مطابق جب موت آئے گی تو دماغ بھی ساتھ ہی مر جائے گا لیکن جب وقت ساتھ چھوڑ دیتا ہے عقل بھی تب ہی ٹھکانے لگتی پھر سمجھ میں آتا ہے کہ کتابی زندگی کا فلسفہ کیا ہے ۔کتابی دنیا کے بھی عجب رنگ ہوتے ہیں جو پھیکے پڑنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ زندگی میں نام پیدا کرنے کیلئے کتاب سے لگن بہت ضروری ہے ورنہ زندگی اس پھول کی مانند ہے جو دور سے کشش تو رکھتا ہے مگر اسکی خوشبو نہیں ہوتی زندگی میں کچھ کرنے اور اپنی شخصیت کو نکھارنے کیلئے کتاب کی سیر ضروری ہے کیونکہ کتابوں کی سیر میں انسان شاعروں، مفکروں اور ادیبوں اور دانائوں سے ہم کلام ہوتا ہے جبکہ کاروباری اور عملی زندگی میں احمقوں اور بے وقوفوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کتابوں سے لگن رکھنے والے لوگ ہر وقت پُر سکون رہتے ہیں انہیں اپنی ہر مشکل کا حل ادبی طریقے میں ممکن نظر آتا ہے۔ سیکھنا انسانی زندگی کا ایک اہم عمل ہے اور کچھ اچھا سیکھنے کیلئے کتابوں کا سہارا لیاجاتا ہے جیسا کہ مشہور مفکر ملٹن کا کہنا ہے کہ ’’ زندگی کا بہترین سرمایہ اچھی کتاب ہے‘‘ اچھی کتابیں ہی انسان کے تجربات اور علم میں اضافے کا باعث بنتی ہیں یہ ہماری عملی زندگی میں ایک وفادار دوست کی طرح مدد کرتی ہیں۔کتابیں علم کا ایک قابل قدر ذریعہ ہیں یہ لامحدود فوائد پر مشتمل ہوتی ہیں کتابوں کی بدولت نئی نئی ٹیکنالوجی اور ادب کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔کتابیں اور تجربات زندگی میں بہت فائدہ مند ہوتے ہیں کتابیں زندگی میں مکمل انسان بننے میں مدد دیتی ہیں یہ ہماری بہترین دوست اور استاد ہیں۔ کتابیں انسانی زندگی کو بدلنے اور اسکی تعمیر و تشکیل میں اہم کردارادا کرتی ہیں۔مطالعہ کے شوقین حضرات اپنی روح کی تعمیرو تشکیل کا ذریعہ کتابوں کو قرار دیتے ہیں مطالعہ سے انسان کا ذہن کھلتا ہے اور وہ ایک لفظ ہے دیگر الفاظ کے معنی تلاش کرنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔
مطالعے کی وسعت انسان کو غرور کی بجائے عجز کی طرف لے جاتی ہےاور اسے ان حقائق سے آگاہ کرتی ہے کہ جن سے وہ اب تک لاعلم رہا۔اچھی کتابوں کے مطالعے کا ذوق رکھنے والے افراد ان لوگوں کی نسبت بہتر ہوتے ہیں کہ جو مطالعہ نہیں کرتے اور اپنی ذہنی گرہیں نہیں کھولتے۔یہاں یاد رکھنا ضروری ہے کہ کتابوں کے انتخاب میں ہمیشہ احتیاط کی ضرورت پڑتی ہے، خام ذہن کے لیے بغیر سوچے سمجھے ہر طرح کی کتابوں کا مطالعہ فائدے کے بجائے ضرر کا باعث بن جاتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ روابط بڑھائے جائیں کہ جو زندگی کا زیادہ حصہ مطالعے میں گزار چکے ہوں تاکہ ان کی رہنمائی میں مطالعے کا سلسلہ شروع ہو۔ مطالعہ بعض اوقات دو دھاری تلوار کی مانند ہوتا ہے۔ ہمیشہ تعصبات اور مخصوص نظریات کی عینک لگائے بغیر مطالعہ کرنا چاہیے۔فرقہ پرستی، بے حیائی،علاقائی و لسانی منافرت پر اکسانے والی کتابیں آ دمی کو ایسی دلدل میں پھنسا دیتی ہیں کہ جس سے نکلنا پھر بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ایسی کتابوں سے ہر صورت دور رہنا چاہیے
جوانی میں کتابیں پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی درز سے چاند دیکھ رہے ہوں . ادھیڑ عمر میں کتابوں کا مطالعہ ایسے ہی ہے جیسے کھلے آنگن میں چاند کو دیکھا جائے اور بڑھاپے میں کتاب بینی ایسی ہے جیسے اونچی ہموار جگہ سے چاند کا نظارہ کیا جائے . اس کی وجہ یہ ہے کہ مطالعے سے جوفائدے حاصل ہوتے ہیں ان کی گہرائی اپنے ذاتی تجربے کی گہرائی کے تناسب سے بدلتی رہتی ہے .
جو شخص کتاب زندگی جیسے بے لفظ کتاب کا مطالعہ کرنے کاہنر رکھتا ہے وہی شخص حسین اور لاجواب باتیں کر سکتا ہے . وہ سچائی جو لفظوں میں سما نہیں سکتی اگر کسی کی سمجھ میں آجائے تو اسےحکمت اعلی کا ادراک ہو جاتا ہے .
ادب وہ منطر ہے جو میز پر رکھا ہے اور منطر وہ ادب ہے جو زمین پر بکھرا ہوا ہے . مطالعہ سب سے بڑی مسرت ہے . پھر بھی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے خوشی نہیں ہوتی بلکہ نا انصافیوں پر غصہ آتا ہے . لیکن اس غصے میں بھی کتنا مزہ ہے .
کہتے ہیں کہ ادبیات عالیہ کی کتابیں سردیوں میں پڑھنی چاہیئے کیونکہ ان دنوں ذہن اور توجہ ان دونوں پر مرکوز رہ سکتی ہے .تاریخ کامطالعہ گرمیوں میں کرنا چاہیئے کیونکہ ان دنوں آدمی کے پاس کافی وقت ہوتا ہے . پرانے فلسفیوں کا مطالعہ خزاں میں کرنا چاہیئے کیونکہ ان کے خیالات بڑےدلکش ہوتے ہیں .اور دور حاضر کے ادیبوں کی کتابیں بہار میں پڑھنی چاہیئے کہ ان کو پڑھنے سے فطرت میں جان پڑ جاتی ہے .
جب کوئی فوجی جرنیل ادب پر بات کرے تو افواہ سی لگتی ہے اور جب کوئی ادیب اپنے کمرے میں بیٹھ کر جنگی بحث کرتا ہے تولگتا ہے جیسے کاغذ کے سپاہی بنا رکھے ہوں . پر بات تو بات ہے کرنے کو سب ہی کرتے ہیں. یقین جانئے جومطالعہ کرنا جانتا ہے وہ جہاں جاتاہے اس کے لئے ہر چیز کتاب بن جاتی ہے .پہاڑ اور دریا بھی کتابیں ہیں .چاند اور پھول بھی کتابیں ہیں.جنگ و دہشت گردی بھی ایک کتاب ہے .. پیار اور نفرت بھی ایک کتاب ہے .تاریخ کا ایک منظر بھی ایک کتاب ہے اور ایک شعر بھی ایک کتاب ہے .
آج کل آپ کے زیر مطالعہ کونسی کتاب ہے … اگر نہیں ہے تو ملکی موسم کے حساب سے کتاب کا انتخاب کر لیجئے … اور ہم سب کو اس کتاب کے بارے میں بتانا مت بھولئےگا۔
