تحریر:قاضی سلیم الرشید
حال ہی میں کشمیر کے ایک مقتدر سیاسی رہنما جناب سیف الدین سوز نے مفکر کشمیر مرحوم مولانا محمد سعید مسعودی سے متعلق ایک کتاب کی رسم اجرائ مولانا مرحوم کے فرزند ارجمند ایڈوکیٹ شبیر احمد مسعودی کے ہاتھوں انجام دلائ۔مولانا مسعودی کسی تعارف کے محتاج نہی ہیں۔ ایک باوقار اور معتبر مسلم خاندان سے تعلق رکھنے والے مرحوم حضرت علامہ انور شاہ کشمیری (ر ع) کے قریبی رشتہ دار تھے۔ مرحوم شیر کشمیرشیخ محمد عبداللہ کے صف اول کے ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔اگرچہ” کشمیر چھوڑ دو” تحریک کے روح رواں مولانا مسعودی ہی تھے لیکن چند وجوہات کی بنا پر ( جن میں کشمیری زبان پر مولانا مرحوم کا کم دسترس ہونا بھی شامل ہے) فخر کشمیر محمد افضل بیگ مرحوم شیخ صاحب کے زیادہ قریب سمجھے جاتے تھے۔لیکن سیاسی بصیرت اور حکمت عملی کی خداداد صلاحیتوں کے مالک مولانا مسعودی کو قوم کی طرف سے ‘مفکر کشمیر’ کا لقب دیا گیا تھا۔ جموں وکشمیر کا آئین، ہل والا جھنڈا، نیا کشمیر کا نعرہ اور کشمیر کا قومی ترانہ مولانا مرحوم کی ہی فکر کا نتیجہ تھا۔ ریاست جموں وکشمیر میں Land to Tiller اور موۓ مقدس (صلم) کی تحریک کا سہرہ بھی مولانا مرحوم کو ہی جاتا ہے۔مولانا مرحوم نے اسوقت کشمیری قوم کی راہنمائی کی جب ساری قوم ناموس رسول صلعم کی خاطر سڑکوں پر نکل آئی تھی۔ تحریک موت مقدس کشمیر کی سیاست کا ایک اہم اور نازک مرحلہ شمار کیا جاتا ہے۔ یہ مولانا مرحوم کی سیاسی بصیرت اور اعلے۱ تدبر کا ہی نتیجہ تھا کہ نہ صرف موۓ شریف کی باعزت بازیابی کرائی گئی بلکہ چند اہم سیاسی نتائج بھی دیکھنے کو ملے۔ مرحوم شیخ صاحب اور دیگر کشمیری لیڈروں کی ایک لمبے عرصہ کے بعد ہندوستانی جیلوں سے باعزت رہائی بھی اسی عوامی تحریک کا ایک نتیجہ تھا۔ چنانچہ مولا مرحوم ہمیشہ سے عدم تشدد پر یقین رکھتے تھے اور اس سے اسلام کی پر امن بقاۓ باہمی کا بنیادی جز سمجھتے تھے اپنے کارکنوں، اور عقیدت مندوں کو ہمیشہ عدم تشدد کا ہی درس دیا کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ عدم تشدد کا درس دینے والا خود تشدد کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اللہ مرحوم کی مغفرت کرے اور شہادت کا درجہ عطا کرے۔ انتہائی درویش صفت انسان تھے۔ خود بھی سادگی سے زندگی گزارتے تھے اور دوسروں کو بھی سادگی کا درس دیا کرتے تھے۔ گاندربل میں ان کی ہمسایگی میں رہنے اور ان سے خاندانی تعلقات کی بنا پر بندہ اکثر مرحوم کی صحبت میں رہا کرتا تھا۔ اکثر اپنی ذاتی لائبریری میں لے کر مولانا اس نا چیز کو کشمیر کی سیاسی تحریک اور اس کے بعض اہم مراحل سے واقف کراتے رہے۔ مظہر کا اخبارات وغیرہ میں لکھنے کا بچپن سے ہی رحجان رہا ہے۔ مولانا مرحوم ہمیشہ بے لاگ اور باادب لکھنے کی نصیحت فرماتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ ریاست کے ایک مقتدر اخبار میں مولانا سے متعلق ایک آرٹیکل چھپا جسمیں مرحوم سے منصوب چند بے بنیاد باتوں کو اچھالا گیا تھا تو مظہر سے رہا نہ گیا اور دوسرے دن ہی اسی روزنامہ کے اسی صفحہ اور انہی کالموں میں احقر کا ایک جوابی مکتوب شایح ہوا جسمیں مولانا مرحوم سے منسوب بیانات اور واقعات کو صیح طور پیش کیا گیا۔ اس پر مولانا نے اپنے پاس بلا کر احقر کی سخت سرزنش کی اور فرمایا کہ میری(مولانا) کی صفائی پیش کرنے کے بجائے اپنے قلم کو ان واقعات کے تواریخی پس منظر کو عوام کے سامنے اجاگر کرکے درست اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا جانا بہتر رہتا۔ اسی وقت مولانا نے اپنی ذاتی لائبریری میں لے کر مجھے 8 اور 9 اگست کی فرق کو یہ کہہ کر سمجھایا کہ ایک دن کی فرق سے قوم کی تواریخ بدلتی ہے۔
بہت سے ایسے واقعات ہیں جو انتہائی سبق آموز ہیں۔ بہت سی ایسی باتیں ہیں جو بےحد نصیحت اموز ہیں۔ الغرض مولانا مومسعودی ایک تحریک تھے ایک تواریخ تھے ایک مفکر تھےاور سب سے بڑھکر ایک شریف النفس ، سادگی پسند درویش صفت انسان تھے۔اللہ تعالی ان کی قبر پر نور کرے اور آخرت میں سرخ روی عطا کرے۔
