جمعرات دیر گئے شوپیان کے گاگرن علاقے میں بندوق برداروں نے تین مزدوروں پر گولیاں چلاکر انہیں زخمی کیا ۔ باہر سے آئے تین مزدور یہاں کئی مہینوں سے مقیم ہیں ۔ اچانک ان پر گولیاں چلاکر انہیں زخمی کیا گیا ۔ بعد میں انہیں پولیس کی مدد سے مزید علاج معالجے کے لئے نزدیکی ہسپتال لے جایا گیا ۔ اس طرح سے کئی مہینوں کی خاموشی کے بعد علاقے میں ایک بار پھر بہاری مزدوروں پرفائرنگ کا یہ لرزہ خیز واقع پیش آیا ۔ اس واقعے کی وجہ سے پورے علاقے میں خوف وہراس پایا جاتا ہے ۔ کئی سماجی حلقوں اور سیاسی رہنمائوں نے اس واقعے کی مزمت کی اور اسے کشمیری روایات کے منافی واقع قرار دیا ۔ ادھر بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ سرکار کے کئی اقدامات کو لے کر غیر علاقائی باشندوں کو کشمیر میں آباد کرنے کے جن شبہات کا اظہار کیا جارہاہے شوپیان واقع اس کو روکنے کی کاروائی ہے ۔ تاہم سرکار نے ایسے تمام
خدشات کو مسترد کرتے ہوئے اسے سیاسی حلقوں کا پروپگنڈا قرار دیا ۔ شوپیان واقعے کی مزمت کرتے ہوئے حکومت نے تمام شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کا پھرسے وعدہ کیا ۔ مزدوروں کی ہلاکت کو ایک بزدلانہ حرکت قرار دیتے ہوئے اس میں ملوث افراد کو نمایاں کرنے کی یقین دہانی کی گئی ۔ پولیس نے اس حوالے سے کیس درج کرتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کیا ہے ۔
شوپیان میں مزدوروں کو ایک سافٹ ٹارگٹ بناتے ہوئے ان پر گولیاں چلانا بڑا ہی سخت واقع ہے ۔ اس سے پہلے جموں کشمیر میں کئی ایسے واقعات پیش آئے ۔ بلکہ شوپیان میں بھی ایسے کئی عام شہریوں کو ہلاک کیا گیا ۔ پولیس نے ان ہلاکتوں میں ملوث افراد کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں قانون کے حوالے کیا ۔ اس طرح سے کئی گھرانے اس کی زد میں آکر سخت مصائب کا شکار بتائے جاتے ہیں ۔ سرکار ایسے واقعات میں ملوث افراد کو نظر انداز کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ راج بھون سے لے کر وزیراعظم ہائوس تک تمام حکام ان واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرنے پر زور دیتے ہیں ۔ اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پولیس بہت جلد گاگرن میں گولیاں چلانے والوں اور اس کاروائی کی پشت پناہی کرنے والوں تک پہنچ جائے گی ۔ حفاظتی دستوں کے علاوہ تحقیقاتی ایجنسیوں نے کشمیر میں اپنے ساتھ نوجوانوں کو ملاکر ایک ایسا جال پھیلایا ہے کہ کسی بھی کاروائی میں ملوث افراد زیادہ دیر تک پردے میں چھپ کر نہیں رہ سکتے ہیں ۔ بہت سے لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ مخبری کا ایک مضبوط نظام ہونے کے باوجود ایسے واقعات کس طرح سے پیش آتے ہیں ۔ پولیس کو اس طرح کے واقعات کی پیشگی اطلاع ضرور ہونی چاہئے تھی ۔ جیسے اور جس طرح سے بھی گاگرن شوپیان میں فائرنگ کا واقع پیش آیا ۔ تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ پولیس بہت جلد اس حوالے سے گرفتاریاں عمل میں لائے گی اور ان اسلحہ برداروں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگی جنہوں نے گاگرن میں مزدوروں پر گولیاں چلائیں ۔ یقینی طور گولیاں چلانے والوں کو نتائج کی زیادہ فکر نہیں ہوتی ۔ لیکن اس وجہ سے ان کے عزیز و اقارب کو جو مشکلات اور مصائب پیش آتے ہیں وہ بڑے سخت ہوتے ہیں ۔ ان گھرانوں کا ان مشکلات سے نبردآزما ہونا آسانی کا کام نہیں ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسے عناصر کے والدین خاص کر ماں بہنیں سخت پریشانیوں سے دو چار ہوجاتی ہیں ۔ انہیں کوٹ کچہریوں کے چکر کاٹتے دیکھا گیا ہے ۔ بلکہ باہر کی جیلوں اور عدالتوں میں دربدر پھرتے بھی دیکھا گیا ۔ آج کی صورتحال کے اندر کوئی وکیل یا سیاسی لیڈر ان کے کیس کو دیکھنے کا بھی روا دار نہیں ۔ بلکہ انہیں بری طرح سے دھتکارا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی حلقوں میں اس طرح کی کاروائیوں کو اب اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے ۔ بلکہ اس کے تناظر میں پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ لگاتے ہوئے لوگ ایسی کاروائیوں سے دور رہنا چاہتے ہیں ۔ کسی بھی ا سلحہ بردار کے گھر والے اپنے بیٹوں کی پشت پناہی کرنے کو تیار نہیں ۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ جان بوجھ کر نوجوان خود کو اور اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کو مصائب کے گرداب میں ڈالنے پر کیسے تیار ہوتے ہیں ۔ پچھلے تین چار سالوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دہلی سرکار اور اس کی ماتحت ایجنسیوں نے یہاں کے حالات پر مضبوط اور سخت ترین گرفت حاصل کی ہے ۔ بڑی سے بڑی عسکری کاروائیاں انجام دینے سے ان حالات میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ہے ۔ اس کے باوجود کئی عناصر اب بھی گولی اور مارا ماری کو مسائل کا حل سمجھتے ہیں ۔ ایسے واقعات سے مصائب میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہوتا ہے ۔ جن گھرانوں کے چشم و چراغ مختلف جیلوں میں ہیں ان کی پریشانیاں ناقابل برداشت ہیں ۔ اب مزید کاروائیوں کا مطلب ہے مزید مشکلات کو دعوت دینا ۔ ایسی کاروائیاں کرنے والوں کو ان کے نتائج سے ضرور باخبر ہونا چاہئے ۔