
یوں تو ہماری ریاست جموں و کشمیر حسن کے فریب اور دلکش نظاروں سے لطف اندوز ہے۔یہاں کی فضائی قدرتی پھلوں جنگلی جڑی بوٹیوں کی مسرور کرنے والی مہک سے معطر ہیں۔ اوپر پہاڑیوں پر قدرت کی آغوش میں قدرتی پھولوں سے سجی سرسبز وسیع میدان چراگاہ ہے۔جموں و کشمیر کے چناب ویلی کے سیاحتی مقامات کی خوبصورتی دوسرے حصوں سے کم نہیں۔گرمیوں کے دوران خطہ چناب کے مقامی لوگ اور اسکولی بچوں کے لئے کشش کامران بنی ہوئے ہیں۔ چناب ویلی کے سیاحتی مقامات میں شامل سینکڑوں مقامات سیاح کو اپنی جانب راغب کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان مقامات میں سیاح کے لیے کسی طرح کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مجبور ہوکر واپس لوٹنا پڑتا ہے۔اس کی آخر کیا وجہ رہی؟ کیوں نہیں انتظامیہ نے آج تک اس سلسلے میں کوئی بھی مداخلت نہیں کی؟کیوں وہ سیاح کے ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے؟اس سلسلے میں جب ہم نے سماجی کارکن محمد اکرم سے بات کی تو انہوں نے بتایا کی خطہ چناب کے خوبصورت سیاحتی مقامات کو نظر ثانی کرنے کی ازحد ضرورت ہے۔ جس میں سرکار ابھی تک مکمل طور پر ناکام رہی ہے جس کے سبب خطہ چناب کی خوبصورتیاں ضائع ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر انتظامیہ چاہے تو ان مقامات کو فروغ دے سکتی ہے جس سے مقامی و غیر مقامی سیاحوں کی آمدورفت بڑھتی جس سے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوتے۔ خطہ چناب ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ہر وقت فنڈز نہ ہونے کی بات کی ہے۔ تاہم مقامی لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر محکمہ کے پاس فنڈ ہی نہیں موجود ہے تو پھر اس محکمے کا کیا فائدہ؟ اس سے اچھا ہے کہ اس اتھارٹی کو ہی بند کر دینا چاہیے۔
سماجی کارکن نشاط احمد قاضی نے بتایا کہ اگر واقعی حکومت خطہ چناب کے سیاحتی مقامات کو نظرثانی نہیں کر سکتی ہے تو وہ ان کی ناکامی ہے۔ لوگ اس قدرتی خوبصورتی کے دیوانے ہیں۔ مگر لوگوں کو اس خوبصورتی کا کوئی فائدہ نہیں مل سکتا ہے۔ گورنر انتظامیہ اور ضلع انتظامیہ کو چاہیے کہ خط چناب کے ان خوبصورت سیاحتی مقامات پر نظرثانی کریں تاکہ لوگوں کو روزگار کے موقع مل سکے۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب خطہ چناب کے لوگ ان سیاحتی مقامات کو دیکھنے کے لئے ترسے نگے کیونکہ یہ سیاحتی مقامات دن بدن خستہ حال ہوتے جا رہے ہے۔ضلع انتظامیہ و گورنر انتظامیہ ان خوبصورت جگہوں پر نظر ثانی کرنے کے لئے کوئی بھی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے جس کے چلتے آج ان سیاحتی مقامات کو اجھڑی ہوئے کھیت کی طرح دیکھتے ہیں۔ کروڑوں کے فنڈس ان مقامات کے لیے آتے ہیں مگر آخر ان خوبصورت جگہوں کو اس نظر سے کیوں نہیں دیکھا جاتا ہے؟سرکار یہ دعوی کر رہی ہیں کی دنیا بھر سے سیاح یہاں پر آنے چاہیے مگر ان مقامات پر کوئی نظر ثانی نہیں ہوتی ہیں۔اس سلسلے میں جموں و کشمیر کے سابقہ وزیراعلی غلام نبی ازاد نے کہا کہ جو جموں و کشمیر کے جو سیاحتی مقام ہیں انہیں انتظامیہ اپنی فنڈس میں ایسی بنیادی سہولیات کو بہترین انداز سے متعین کرنے میں صرف کر سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں کئی طرح کی فنڈز ہیں وہاں گزار ہوتی ہیں۔اگر انتظامیہ چاہیے تو کسی بھی فنڈز میں سے کسی سیاحتی مقام کی ترقی کو پائے تکمیل تک پہنچا سکتی ہے۔
اس سلسلے میں جب ہم نے بھلیسہ سے تعلق رکھنے والے ضلع ترقیاتی کونسلر ندیم شریف نیاز نے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ جہاں جموں کشمیر میں ڈھیر سارے سیاحتی مقامات موجود ہیں اور ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح ان مقامات کا رخ کرتے ہیں وہی خطہ چناب میں بھی سیاحتی مقامات کی بھرمار ہے تاہم چند مقامات کو چھوڑ کر دیگر سبھی مقامات ضلع ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی نظروں سے اوجھل ہے اور ان مقامات میں کوئی نظر ثانی نہیں ہوتی ہے۔ اگر ان مقامات پر نظرثانی ہوگی تو نہ صرف خطہ چناب بلکہ جموں کشمیر کی سیاحت کو فروغ مل سکتا ہے اور مقامی و غیر مقامی سیاحوں کی آمد و رفت میں بھی اضافہ ہوگا۔ خطہ چناب میں ایسے کئی جگہ ہیں جو یہاں کے علاقوں پر اپنی خوبصرتی سے چار چاند لگا سکتے ہیں۔ اگرچہ جموں کشمیر انتظامیہ نے ان سیاحتی مقامات کو نظرثانی رکھنے کے لئے ڈیپارٹمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا تھا لیکن اتھارٹی زمینی سطح پر کام کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اور سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرنے میں مکمل طور ناکام ہے جس کے سبب ضلع کی خوبصورتی ضائع ہورہی ہے۔اس سلسلے میں پہاڑی علاقہ سے تعلق رکھنے والی خاتون نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطہ چناب کی خوبصورت جگہوں کو نظرثانی رکھنے کے لیے کسی بھی قسم کا کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر خطہ چناب کے پہاڑی علاقوں کی بہترین خوبصورتی کو دلفروز نظر سے انتظامیہ دیکھتی تو شاید یہاں پر کسی بھی چیز کی کمی نہیں رہتی۔یہاں کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم ہوتا اور خاص کر یہاں کی خواتین بھی کئی طرح کی روزگار کما لیتیں۔پہاڑی علاقوں کی خواتین کی پیداوار سبزی دال اور بھی کئی طرح کی نمایاں چیزیں فروخت کی جا سکتی ہیں۔لیکن بیرون علاقوں سے سیاحوں کے نہ آنے کی وجہ سے یہ تمام تر چیزیں فروخت نہیں کی جا سکتی ہیں۔ یہاں کی خوبصورت سیاحتی مقامات جو کئی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ نہ ہی روڈ، نہ بجلی اور نہ رہنے کھانے پینے کے انتظام ہیں۔ جس کی وجہ سے باہر سے آئے ہوئے سیاحوں کو یہاں پر دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ضلع انتظامیہ اور گورنر انتظامیہ نے اس پر نظر ثانی کی ہوتی تو آج ان سیاحوں کو اس قسم کی کوئی مشکلات سامنے نہیں آتی۔ ان سیاحتی مقامات پر اے ٹی ایم کارڈ کی سخت ضرورت بھی ہے۔ انہوں نے گورنر انتظامیہ و ضلع انتظامیہ سے گزارش کی ہے کہ وہ سخت سے سخت اقدام اٹھائیں اور خطہ چناب کے سیاحتی مقامات کا جائزہ لے کر ان سبھی بنیادی سہولیات کا انتظام کریں تاکہ یہاں کے لوگ اس قدرتی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوسکے اور باہر سے آئے ہوئے سیاح یہاں کے دیوانے ہو جائے اور بے روزگار نوجوانوں کو بھی روزگار مل سکے۔
اس سلسلے میں جب ہم نے ضلع ترقیاتی کمشنر ویشیشپال مہاجن سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے ایک لسٹ جاری کی ہے جس میں کئی سیاحتی مقامات کو آنے والے وقت میں انتظامات کیے جائیں گے تاکہ جو بھی سیاہ باہر سے ائیں گے انہیں کوئی بھی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔انہوں نے کہا کہ ہماری پہل یہی رہے گی کہ سیاحتی مقامات پر فوری طور پر بجلی پانی اور رہنے کا انتظام کیا جائے۔خیر آخر امید ہی کی جاسکتی ہے کہ کب انتظامیہ ان خطہ چناب کے پہاڑی علاقوں کے سیاحتی مقامات پر بنیادی سہولیات کے فقدان کو ختم کرے گی۔(چرخہ فیچرس)
