تحریر: عرفان رینہ
(انگریزی سے ترجمہ)
ہندو برادری کے لوگ ملک کے مختلف حصوں سے آکر امرناتھ گپھا کا درشن کرتے ہیں ۔ 62 دنوں پر پھیلی یہ یاترا ہر سال اول جولائی سے شروع ہوتی ہے اور یاتری دو راستوں سے گھپا تک جاتے ہیں ۔ نون ون پہلگام کا راستہ 48 کلومیٹر لمبا ہے ۔ اس کے برعکس بال تل کے راستے جانے والوں کو صرف 14 کلومیٹر کا راستہ طے کرنا پڑتا ہے ۔ یہ راستہ قدرے دشوار ہے اور یہاں سے بڑے احتیاط سے گزرنا پڑتا ہے ۔ ایک طویل عرصے سے جاری اس یاترا کو مذہبی ہم آہنگی اور برادرانہ تعلقات کا مظہر مانا جاتا ہے ۔ دو مختلف عقیدوں کے قائل لوگ ایک دوسرے کو یاترا کے دوران مدد کرتے دیکھے جاتے ہیں ۔ یہ بڑا ہی منفرد منظر ہے کہ ہندو عقیدے کے لوگ مذہبی فریضہ انجام دیتے ہیں اور مسلمان اس دوران تن دہی سے ان کی مدد کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کی یہ معاونت بڑی ہی دیدنی ہے ۔ حالات جیسے بھی رہے ۔ لیکن مقامی مسلمان ہمیشہ یاتریوں کے سہولت کار بنے رہے ۔ کشمیری مسلمانوں کا اس میں رول بڑا شاندار رہاہے ۔ بال تل میں ایک ایسے ہی معاون کا کہنا ہے کہ یاتریوں کو گھپا تک پہنچانے کے دوران وہ اپنی فکر کرنے کے بجائے یاتریوں کی حفاظت پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔ بال تل میں یاتریوں کے جمع ہونے کا اس راستے پر سب سے زیادہ ہجوم رہتا ہے ۔ یہاں ان یاتریوں کے لئے بیس کیمپ قائم رہتا ہے ۔ دریائے سندھ کے کنارے واقع اس کیمپ میں رات دن چل پہل رہتی ہے ۔ مسلمان یہاں رکے اور تھکے بغیر یاتریوں کو سہولت فراہم کرتے نظر آتے ہیں ۔ وہ خوش دلی سے ان یاتریوں کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں ۔ ایسے خدمت گاروں میں کئی ایک نے یہاں یاتریوں کے لئے ڈابے اور خیمے لگائے ہیں ۔ یہ لوگ بڑی بے صبری سے یاتریوں کے انتظار میں رہتے ہیں ۔ان کے علاوہ یہاں یاتریوں کے لئے گھوڑے فراہم کرنے والے مقامی لوگ ہوتے ہیں جو یاترا کے راستے سے پوری طرح سے واقف ہیں ۔
راستے کی اونچ نیچ کے علاوہ خطرناک موڑوں سے باخبر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ راستے کو بہتر طریقے سے طے کرنے کے لئے ان کی معاونت بڑی فائدہ مند رہتی ہے ۔بیمار اور عمر رسیدہ یاتریوں کو یہ لوگ پالکیوں میں ڈال کر اپنے کندھوں پر اٹھاکر منزل مقصود تک لے جاتے ہیں اور بڑے آرام سے واپس بھی لاتے ہیں ۔ یہاں عمومی طور آکسیجن کی قلت محسوس کی جاتی ہے ۔ بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے آکسیجن کی مقدار کم ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ موسم اچانک بدل کر بڑا ہی قہر آلود بن جاتا ہے ۔ اس وقت معاونوں کا رول اہم ہوتا ہے ۔ یوں تو بال تل سے گھپا تک کا راستہ صرف چودہ کلومیٹر کا ہے ۔ لیکن راستے کی دشواری یہاں سے گزرنے والے کے لئے بہت ہی کٹھن اور تھکادینے والی ہے ۔ دومیل ، براری مرگ اور سنگھم سے ہوتے ہوئے گھپا تک پہنچنا پڑتا ہے ۔ یہ کوئی آسان سفر نہیں ۔ کئی لوگ سرکار کی طرف سے فراہم کئے گئے چھوٹے جہازوں میں جاتے ہیں ۔ لیکن اکثر لوگ پیدل یا گھوڑے سے سفر کرنے کو فوقیت دیتے ہیں ۔ کئی یاتری ایسا نہ کرنے کی طاقت سے محروم ہوتے ہیں اور دوسروں کے سہارے یہ سفر مکمل کرتے ہیں ۔ کئی یاتری مسلم مددگاروں کے کاندھوں پر یاپالکی میں جاتے نظر آتے ہیں ۔ انہیں مدد فراہم کرنے والے مقامی مسلمان ہوتے ہیں جو اچھے اور برے دونوں طرح کے حالات میں انہیں ساتھ دیتے ہیں ۔ وہ بغیر کسی خوف کے ایسے یاتریوں کو بحفاظت واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ۔ کچھ نوجوان یاتریوں کو بنیادی ضرورت کی چیزیں فراہم کرنے کے لئے عارضی دکان بھی لگاتے ہیں ۔ ان کے لئے یاترا کمائی کا ذریعہ بھی ہے ۔ تاہم اس دوران یاترا پر آئے ہندووں کا مقامی لوگوں کے ساتھ جو تعلق بنتاہے وہ بڑا اہم ہے ۔
