
یہ حقیقت ہے کہ وہ افراد جو کسی نہ کسی جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار ہیں، ان کی تعلیم کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔اورنہ ہی اُنکی صحت پر کوئی خاص توجہ دی جا تی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، حکومتیں اور شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد اور ادارے اپنے لوگوں کو ان کا بنیادی حق دینے میں ناکام ہورہے ہیں۔خصوصاً معذور بچیوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ صرف ایک سماجی ناانصافی ہے بلکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ ایک گھنونا مذاق بھی ہے۔انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے ادارے ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں دسمبر 2012ء سے لے کر نومبر 2014ء تک بھارت کے چھ مختلف شہروں میں معذور عورتوں اور لڑکیوں کی زندگیوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔ لیکن زمینی سطح پر آج تک کہیں بھی یہ جائزہ نظر نہیں آیا۔گورنمنٹ کی طرف سے کچھ امداد نہ ملنے کی وجہ سے معذور بچے اور بچیاں مزدوری کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ جنہیں ہر وقت دشواریاں پیش آتی ہیں۔ تمام تر سہولیات سے معذور نوجوان لڑکیوں کو محروم رکھا ہوا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال جمّوں کشمیر کے ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی سے پانچ کلومیٹر کی دوری پر واقع بلاک لورن کے ایک گاؤں سٹیلاں (لوہل بیلا) کی ہے۔ سٹیلا وارڈ نمبر پانچ میں رہنے والی دو معذور سگی بہنوں کی کہانی ہے۔ ان میں سے بڑی بہن کا نام تنویر اختر ہے اور چھوٹی کا نام رخسانہ کوثر ہے۔دونوں بہنیں بچپن سے معذور ہیں۔ تنویر اختر بلکل بول نہیں سکتی اور اسکو جسمانی معذوری بھی ہے۔ پورے جسم پر لال قسم کے بڑے بڑے دھبے پڑے ہوئے ہیں۔ اپنی جسمانی اور ذہنی معذوری کی وجہ سے وہ تعلیم بھی حاصل نہیں کر پائیں۔وہیں چھوٹی بہن رخسانہ کوثر بڑی مشکل سے چند الفاظ بول پاتی ہے۔ رخسانہ نے آٹھویں تک اسکولی تعلیم حاصل کی ہے۔والدین کی معاشی حالت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اس نے 2017میں اسکول چھوڑ دیا تھا اور آج کل دونوں بہنیں مل کر گھر کا کام کرتی ہیں۔
انکا کوئی دوسرا بھائی یا بہن نہیں ہے۔ یہ معذور ہو کر گھر کا سارا کام خود کرتی ہیں۔ یہ ایسے گاؤں میں رہتی ہیں جہاں ایک وقت کی روٹی ملنا دشوار ہے کیونکہ ان کے گھر کمانے والا کوئی نہیں ہے۔ انکے والد بہت بوڑھے ہو چکے ہیں۔ وہ کمانے کے لایق نہیں ہیں۔ یہ دونوں بہنیں اپنی معذوری کو ایک طرف رکھ کہ اپنے ماں باپ کو کما کر کھلاتی ہیں۔ کبھی کسی کے گھر جا کر برتن صاف کر کے اور کبھی کپڑے دھو کر پیسا کماتی ہیں۔ انکا گزرا صرف اسی پر ہوتا ہے۔ جب گاؤں میں کاشتکاری کا کام شروع ہوتا ہے تو یہ دونوں بہنیں مزدور کے طور پر وہاں کام کرتی ہیں۔ آپ کو یہ پڑھ کر حیرانی ہوگی کہ یہ لڑکیاں ہو کر بھی کھیتوں میں مکی گوڈی کرنا، مکی کاٹنا، مویشیوں کے لئے گھاس کاٹنا، جنگل سے لکڑیاں وغیرہ لانے کا کام کرتی ہیں۔جو ایک عام انسان کے لئے کرنامشکل ہو جاتا ہے۔ یہ تو معذور ہیں، اور پھر مزدور وہ بھی نو عمر لڑکیاں۔ ان دونوں کے ہاتھوں میں کام کر کر کے چھالے پڑے ہوئے ہیں۔اشاروں کی زبان سے بڑی بہن تنویر اختر کہتی ہیں کہ”ہم معذور بھی ہیں اورمزدور بھی۔ افسوس کہ کوئی بہتر ذریعہ ہوتا تو آج ہم اس حال میں نہ ہوتیں۔ ہم معذور ہو کر بھی تعلیم یافتہ ہوتے جیسے کہ باقی لڑکیاں ہیں۔ ہمارے اندر بھی وہ جذبہ ہے جیسے عام لوگوں میں ہوتا ہے لیکن ہمارے جذبے کو دبا کے رکھا جاتا ہے۔ ہر حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔اگر ہمارے حق میں گورنمنٹ کی طرف سے کوئی اسکیم آتی بھی ہے توہمیں اس کی خبر تک نہیں پہنچنے دیتے ہیں تاکہ ہم پیچھے رہ جائیں۔ ہم دونوں بہنوں کی یہ گزارش ہے کہ ہم بہت غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں لہٰذا ہمیں بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کی جائیں۔ ہماری جسمانی معذوری کے لیے مفت علاج کا انتظام کیا جائے۔“
اسی سلسلے میں ایک مقامی باشندہ مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ”اس گاؤں کے لوگ زیادہ تر خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دونوں بہنیں تنویر اختر اور رخسانہ کوثر میرے گھر کے بلکل قریب رہتی ہیں۔ یہ دونوں ذہنی اور جسمانی معذور ہیں۔ لیکن معذور ہوتے ہوئے بھی یہ دونوں مردوں کی طرح پوری مزدوری کر کے گھر کے اخراجات سنبھالتی ہیں۔ کھانے پینے کا پورا نظام خود کرتی ہیں جبکہ انکے والد محترم بہت بزرگ ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جا سکتے۔ یہ دونوں لڑکیاں دن رات ایک کر کے اپنی روزی روٹی کا نظام کرتی ہیں۔نہ انکے پاس تعلیم ہے، نہ پہننے کے لئے اچھے کپڑے، نہ دو وقت کی روٹی اچھے سے میسرہوتی ہے۔ آپ سوچ ہی سکتے ہیں کہ لڑکیاں کِتنا کما سکتی ہیں۔ وہ بھی معذور لڑکیاں کیا کمائیں گی؟ انہیں کبھی کسی کے گھر کام ملتا ہے کبھی نہیں۔ میں بڑے ہی افسوس کہ ساتھ یہ کہتا ہوں کہ عام لوگوں کو تو انکا حق نہیں دیا جاتاہے۔ایسے میں ان معذور کے بارے میں کون سوچتا ہے؟حالانکہ حکومت کی جانب سے انکے حق میں بہت ساری اسکیمیں ہیں۔اگر انہیں ان اسکیموں سے جوڑ دیا جائے تو ان بہنوں کو مزدوری کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کون ان کو ان اسکیم سے فائدہ دلایے گا؟عام انسان کو کسی سے مطلب نہیں اور افسران حساس نہیں۔اسی حوالے سے گاؤں لوہلبیلا کی سرپنچ محترمہ روبینہ اختر اور مقامی شمیم اختر انکا بھی یہی کہنا ہے کہ ”بہت سی باہم معذور خواتین اور بچیاں تعلیم اور مختلف مہارتیں حاصل کر کے اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کر رہی ہیں۔ لیکن یہ دونوں معذور بہنیں کام کاج کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتی ہیں۔ موجودہ حکومت سے ان معذور بچیوں کے لئے بہت بار مطالبہ کیا لیکن کسی نے انکی نہیں سنی۔جس کی وجہ سے آج بھی یہ در در کی ٹھوکریں کھا کر اپنا گزرا کرتی ہیں۔لہذا اس طرح کے مفروضات کے خاتمہ کے لیے آپ سب مل کر کوشش کریں اور ان باہم معذور بچیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک جس میں جسمانی تشدد اور ذہنی تشدد شامل ہے، صرف اسی صورت میں اس کا خاتمہ ممکن ہے اگر ہم ان دونوں بچیوں کو باصلاحیت بنا دیں اور وہ بسرروزگار ہو جائیں۔
یہ ذہنی معذور ہیں بول بھی نہیں سکتی انکے ساتھ کبھی بھی کوئی بھی واقع پیش آ سکتا ہے۔ باہم معذور خواتین اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے حکومت کو آگاہ کریں گے اور حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات سے ضرور یہ بچیاں مستفید ہوں گی۔ والدین اور معاشرے کے افراد سے گزارش ہے کہ ان خواتین اور بچیوں کو مواقع فراہم کریں تاکہ یہ اپنی صلاحیتوں سے اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا اہم رول ادا کر سکیں۔معاشرے کے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ معذور خواتین یا بچیاں بھکاری ہوتی ہیں اور انہیں چندہ یا خیرات دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ معاشرے کے اس طرح کے رویے ان خواتین یا بچیوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ایسا سمجھنا ایک غیر اخلاقی اور غیر انسانی عمل ہے۔بہت سے والدین اور معاشرے کے افراد ان باہم معذور خواتین اور بچیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ایک غلط تصور ہے۔ معذور نو جوان لڑکیوں کو اُنکے حق سے بلکل بھی محروم نہ رکھا جائے انکے لئے ایسی سہولت فراہم کی جائیں تا کہ یہ لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرنے سے بچ جائیں۔(چرخہ فیچرس)
