از ۔ محمد انیس
انسانی تمدن میں دو طرح کےایام ہوتے ہیں ۔ایک ایام جنگ کا ایام ہوتا ہے اور دوسرا ایام امن کا ایام ۔ ایام جنگ استثنائی اوقات کا نام ہے جبکہ ایام امن نارمل اور مستقل اوقات کا نام ۔ اس بنا پر جنگی ماحول میں جو احکام کمانڈد کی طرف سے جاری اور نافذ ہوتے ہیں وہ نارمل حالات میں نافذ نہیں ہوتے۔ یہ ایک سادہ سی بات ہے جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے ۔ اسی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ قرآن میں جو جنگ (قتال) کے احکام و ہدایات ہیں, وہ کب اور کن حالات میں نافذ ہونے کیلئے ہیں۔ یعنی وہ زمانۂ جنگ کے احکام ہیں، نہ کہ زمانۂ امن کے احکام ۔ ایسا نہیں کہ زمانہ امن کیلئے بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو شمشیر زنی کا حکم دے دیا ہو۔ جنگ کے بارے میں اسلام کا عمومی اصول کیا ھے وہ اس آیت سے پوری طرح واضح ہوتا ہے ۔۔۔
” جب کبھی یہ ( یہودی) جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں، اللہ اس کو ٹھنڈا کردیتا ہے ۔ یہ زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا” (سورہ مائدہ ، آیت 64)۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ جنگ کے حوالے سے اہل ایمان کی عمومی پالیسی کیا ہونی چاہئے ۔ قرآن میں تو یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ میدان جنگ میں بھی دشمن مصالحت پر آئیں’ تو پھر اس کےبعد تم جنگ کی سبیل نہ نکالو ( سورہ نساء، آیت 90).
جس نبی رحمت کو رب کریم نے اپنے بندوں کے درمیان نذیر و بشیر بناکر بھیجا اور انہیں احسن طریقے سے پیغام پہنچانے کا حکم دیا ( سورہ نحل،: 60)، اس نبی کے دین کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ وہ جنگ و جدال کی تعلیم دیتا ہے ‘ کسی طور پر درست نہیں ۔
قرآن میں زمانۂ جنگ اور زمانۂ امن کی ہدایات الگ الگ ہیں ۔ زمانۂ جنگ کی ہدایات کو دیکھ کر پورے دین کو violent بتانا درست نہیں۔ یاد رہے امت مسلمہ اس دھرتی پر ایک خیر اور متوسط امت کی حیثیت سے موجود ہے ( آل عمران: 110) ۔ قرآن میں جنگی احکام کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ جنگ کےحالات نہ ہوں’ تب بھی اہل ایمان جنگ کیلئے سرگرداں رہیں۔
ہاں، جب مجموعی حالات از خود جنگ و جدال کے متقاضی ہوجائیں تو پھر اہل ایمان کیلئے تلوار اٹھانا ضروری ہوگا۔ یہ اسی طرح ضروری ہوگا جس طرح کسی کیلئے دھرم یدھ ضروری ہوتا ہے اور کسی کیلئے کروسیڈ ۔ اس طرح جہاد کبھی منسوخ نہیں ہوتا ۔ اگر جہاد کےحالات پیدا ہوجائیں تو مسلمانوں کے اول الامر یا حکومت کی طرف سے جہاد کا اعلان ہوگا اور جہاد کے وہ تمام احکام و ہدایات نافذ ہونگے جو قرآن کریم میں موجود ہیں ۔
جہاد بالسیف کے بیان میں بعض پرجوش احباب بار بار وہ حدیث پیش کردیتے ہیں کہ جس میں کہا گیا ہےکہ جنت تلواروں کے نیچے ہے ۔ حالانکہ اس حدیث میں پہلے تو جنگ و جدال سے پرہیز کی ہی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے بعد تمثیلی اسلوب میں بتایا گیا ہے کہ جنت تلواروں کے نیچے ہے ۔ پوری حدیث اسطرح ہے ۔
” رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اے لوگو ۔ دشمن کے ساتھ لڑائی بھڑائی کی تمنا مت کرو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو۔ ہاں، جب جنگ چھڑ جائے تو صبر اور ثابت قدمی اختیار کرو۔ او جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔ پھر آپ ؐ نے دعا کی کہ اے اللہ ہماری مدد کر “. (صحیح البخاری ، حدیث نمبر 3025, 3036)
تاہم یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ ہر شخص یا ہر گروہ جنگ و جہاد کا فیصلہ نہیں لے سکتا۔ جہاد بالسیف کے ساتھ یہ شرط ہے کہ حکومت وقت ( اول الامر) کی طرف سے ایسا اعلان کیا جائے ( حالانکہ اب عام لوگ تو جنگ میں حصہ نہیں لیتے ، ہر ملک کے پاس اپنی اپنی فوجیں ہیں)۔ حکومت کی موجودگی میں فرد یا گروہ ایسے فیصلے نہیں لے سکتے ۔ ایسا نہیں کہ کسی داعش یا کسی حقانی یا جیش گروپ نے غزوۂ ہند کا اعلان کردیا اور اس میں شامل ہونا لازم قرار پائے ۔ دوسرے ملک سے معاملہ کرنے میں حکومتی سطح پر اعلان ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ جہاد نہیں بلکہ گوریلا جنگ اور دہشت گردی کا روپ اختیار کرےگا ۔ یاد رہے جہاد معرکہ حق و باطل کا نام ہے نہ کہ جگہ، زمین، خودمختاری اور آزادی کیلئے جنگ۔
حقیقت یہ ہے کہ قدیم زمانہ پورے معنوں میں جنگ وجدال کا زمانہ تھا ۔ قومیں اور قبیلے مستقل طور پر ایک دوسرے کےساتھ حالت جنگ میں رہتے تھے ۔جنگ ایک نارمل حالت تھی اور امن ایک استثنائی صورت ۔ اسی جنگی حالت میں اللہ تعالیٰ نے سرزمین عرب میں اپنے آخری نبی کو مبعوث فرمایا جس نے مشن توحید کے عظیم مقصد کو لےکر میثاق’ معاہدے اور مصالحت کے ذریعے حالت جنگ کو حالات امن میں تبدیل کردیا ۔ یہانتک کہ اکیلی عورت خیرہ سے مکہ تک سفر کرے اور راستے میں اسے کوئی خطرہ نہ ہو ۔ تب سے لیکر آج تک امن ایک مستقل حالت کا نام ہے اور جنگ ایک استثنائی صورت کا نام۔ اب جب بھی وہ استثنائی صورت آئیگی تو قتال ہوگا ، ورنہ پرامن اور نارمل حالات میں صرف دعوت و تبلیغ کا کام ہوگا۔ میں یہاں ان قرآنی ہدایات کو پیش کرونگا جو اہل ایمان سے نارمل حالات میں مطلوب ہیں ۔۔۔
“اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے قتال نہیں کیا اور تمہیں گھروں سے نہیں نکالا ” ( سورہ ممتحنہ: 8).
” جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کا قتل کردیا’ اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی” (سورہ مائدہ ۔ 32).
“نیکی اور بدی یکساں نہیں ۔ تم بدی کو نیکی سے دفع کرو۔ تم دیکھوگے کہ تمہارے ساتھ جس کی دشمنی تھی وہ جگری دوست بن گیا ھے “( سورہ حم سجدہ: 34)
” تم ایک خیر امت ہو۔ نیکی کا حکم کرتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ ( آل عمران ۔ 110).
جو لوگ قرآن کی جنگی ہدایات کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اسلام ایک تشدد آمیز مذہب ہے اور اس کے احکام تشدد کو بڑھاوا دیتے ہیں’ وہ ذرا یہ بتانے کی زحمت کریں کہ دنیا میں وہ کون سا مذہب ہے جس کی کتاب میں جنگ کے احکام موجود نہیں ہیں۔ قدیم عہد جنگ و جدال کا عہد تھا۔ اس لئے ہر مذہب کی مذہبی کتب میں جنگ سےمتعلق ہدایات پائی جاتی ہیں۔ ہندؤں کی مذہبی کتاب مہابھارت تو شروع سے آخر تک جنگ کی ہی داستان ہے ۔ ویدوں میں بھی جنگ کے منتر ہیں ۔ حتی کہ موجودہ اناجیل میں بھی قتال سے متعلق آیات موجود ہیں ۔ تو کیا اس بنیاد پر دنیا کے تمام مذاہب کو تشدد آمیز مذہب قرار دیا جائیگا ؟
موجودہ زمانے کا یہ ایک المیہ ھے کہ بعض عسکری تنظیمیں غلط تاویل کے ذریعے قرآنی آیتوں کو اپنے حق میں استعمال کرتی ہیں اور لوگ بھی قومیت کے جذبے سے سرشار ہوکر ان کی تائید کرنے لگتے ہیں ۔ یہ ایک غلط روش ہے کہ غلط باتوں میں بھی اپنی قوم کے کسی گروہ کی تائید کی جائے۔ تعصب اسی کا نام ہے ۔ ہمیں قرآنی آیتوں کے ذریعے ان تنظیموں کے غرض و غایت کو سمجھنا چاہئے ، نہ کہ ان کے ذریعے قرآنی آیتوں کو ۔ دنیا جنت کا مقام نہیں ۔ یہاں کچھ شرارتی لوگ نارمل حالات میں بھی تشدد’ فساد اور جنگ و جدال کی طرف مائل رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔ قرآن کے مطابق ایسے حالات میں اہل ایمان کا کام اپنی استطاعت کی حد تک جنگ کو ناکام کرنا ہوگا ، نہ کہ اس میں ملوث ہونا۔ ___________