مسلسل خشک سالی نے باغوں اور میوہ صنعت کو تباہی کے دہانے تک پہنچادیا ہے ۔ اس دوران مرکزی وزیر قانون نے اعلان کیا کہ اگلے ماہ جموں کشمیر میں زراعت اور باغبانی پر خصوصی توجہ دی گئی ۔ موصوف کا کہنا ہے کہ پچھلے دس سالوں کے دوران کشمیر میں مختلف شعبوں کے لئے درکار بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کیا گیا ۔ بنیادی ڈھانچے کے قیام کو انہوں نے مسائل کے ازالے کے لئے ایک اہم پیش رفت قرار دیا ۔ مرکزی وزیر نے یقین دلایا کہ مرکزی سرکار کشمیر کے زراعت اور باغبانی شعبے کو مستحکم بنانے پر توجہ دے گی ۔ ذرایع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے عندیہ دیا کہ زراعت اور باغبانی میں جدت لانے کے لئے کام بہت جلد شروع کیا جائے گا ۔ وزیر موصوف نے کشمیر میں تیار ہورہی مختلف اشیا کو عالمی بازار میں متعارف کرانے کے علاوہ یہاں کی فروٹ انڈسٹری کو جدید راہوں پر گامزن کرانے کے لئے اہم اقدامات کئے جائیں گے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کشمیر میں امن کا ماحول قائم ہوا ہے ۔ اس طرح کے ماحول میں سیاحتی صنعت کو پہلے ہی کافی فروغ ملا ہے ۔ اب زراعت اور باغبانی کو آگے بڑھانے کے لئے کام کیا جائے گا ۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ اس حوالے سے مرکزی سرکار نے کئی منصوبے تشکیل دئے ہیں ۔ ان منصوبوں پر مبینہ طورعمل اگلے مہینے سے شروع ہوگا ۔
کشمیر میں تیس سالوں سے بے حس و حرکت پڑی سیاحتی صنعت کو پچھلے کچھ سالوں کے دوران واپس پٹری پر لایا گیا ۔ اس صنعت کو از سر نو زندہ کرنے کے لئے مرکز نے واقعی کئی اقدامات کئے ۔ امن قائم ہونے کے بعد کوشش کی گئی کہ بیرونی ممالک سے سیاحوں کو یہاں لانے کا کام کیا جائے ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ کسی خوف اور ڈر کے بغیر بڑی تعداد میں سیاح نہ صرف ملک کے مختلف حصوں سے بلکہ بیرون ملک سے بھی بڑی تعداد میں آرہے ہیں ۔ سیاحوں کی آمد پہلے کچھ لاکھ تک محدود تھی ۔ لیکن اب مبینہ طور یہ تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی ہے ۔ سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ ملنا یقینی طور ایک حوصلہ افزا بات ہے ۔ اس دوران سرکار کا کہنا ہے کہ باغبانی کو فروغ دینے کے منصوبے پر کام شروع کیا جائے گا ۔ زراعت اور باغبانی یہاں کے عوام کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس سے خود کو پالنے کے علاوہ کشمیر کی معیشت کو سہارا دینے میں مدد ملتی ہے ۔ تاہم اس حوالے سے افسوس کی بات یہ ہے کہ میووں کو محفوظ بنانے کے لئے کافی سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے ۔ کئی وجوہات کی وجہ سے باغ محفوظ رکھنے کے لئے بڑے پیمانے پر ادویات چھڑکنا پڑتے ہیں ۔ بلکہ میوہ اتارنے تک مسلسل ادویات کا استعمال کرنا پڑتا ہے ۔ بعد میں اتنی آمدنی نہیں ملتی جتنے اخراجات پورا سال اٹھانا پڑتے ہیں ۔ کسانوں کا الزام ہے کہ مختلف کمپنیوں کے طرف سے فراہم ہونے والی ادویات اکثر ناکام رہتی ہیں ۔ بلکہ الٹا باغوں کی تباہی کا باعث بنتی ہیں ۔ ان ادویات کے چھڑکائو سے باغوں کو لگنے والی بیماریوں پر قابو پانے کے بجائے نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ اس شعبے کے ذمہ دار اداروں کی طرف سے تجویز کی گئی ادویات بیشتر موقعوں پر ناکارہ ثابت ہوتی ہیں ۔ ادویات فائدہ مند بھی ہوں ۔ تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ لوگ جراثیم کش ادویات سے تیار کئے گئے میووں کو استعمال کرنا پسند نہیں کرتے ۔ کشمیر میں کچھ مہینے پہلے یہ افواہ پھیلادی گئی کہ تربوزوں کو جعلی طریقوں سے پختہ بنایا گیا اور ان کا استعمال صحت کے لئے مضرثابت ہوگا ۔ ایسی بات سامنے آنے کے بعد کسی فرد واحد نے بھی تربوزوں کی طرف ہاتھ نہیں پڑھایا ۔ اس وجہ سے تربوزوں کی کاشت اور اس کی تجارت کرنے والوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ۔ یہی بات کشمیر کی میوہ صنعت کے حوالے سے کہی جاسکتی ہے ۔ باغوں کے لئے ادویات تیار کرنے والی تمام کمپنیاں باخبر ہیں کہ یہاں کتنے بڑے پیمانے پر جراثیم کش ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ ایسی بات منظر عام پر آئے تو میوہ صنعت کو فروغ ملنا ممکن نہیں ۔ کشمیر میں باغبانی سے منسلک لوگ خود اس بات پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں کہ کشمیر کی اگریکلچر یونیورسٹی اور نہ ہی ہارٹیکلچر کا محکمہ میوہ باغات کو لگنے والی بیماریوں کا کوئی تدارک کرنے میں کامیاب ہوا ۔ نصف صدی گزرجانے کے بعد بھی یہاں کے باغبان سارا سال اپنے باغوں پر وقفے وقفے سے ادویات چھڑک رہے ہیں ۔ا س کے باوجود بیماریو ں پر قابو پانا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ سرکار اگر واقعی کشمیر کے باغوں کو ترقی دینے کی خواہش مند ہے تو سب سے پہلے جراثیم کش ادویات سے چھٹکارہ دلانا ضروری ہے ۔ مرکزی سرکار نے کارونا کے ایام کے دوران محنت کرکے بہت جلد وائرس پر قابو پانے کا ویکسین تلاش کیا ۔ اسی طرح باغوں کو محفوظ بنانے کے لئے کوئی ویکسین بنایا جائے جو باغوں کو محفوظ بنانے کے علاوہ دوسری ادویات سے نجات دلائے تو یہ باغبانوں کے لئے راحت فراہم کرسکتی ہے ۔ اس ذریعے سے باغبان راحت کا سانس لینے میں کامیاب ہونگے ۔ ادویات کا بار بار چھڑکائو کسانوں کے لئے سخت تشویشناک صورتحال کا باعث ہے ۔ اس صورتحال سے بچائو سب سے اہم ہے ۔