غلام حسن
بکر عید کی گھما گھما کی وجہ سے لوگ بکروں اور بیھڑوں کی خریداری میں مصروف تھے ایک بزرگ صاحب سروت شخص مقامی کوٹھدار کے پاس گیا اور بیھڑ خرید نے کی خواہش ظاہر کی اور کہا فلاں اور فلاں بیھڑ کی قیمت کیا ہے , کوٹھدار قیمت بتاتا گیا اور خریدار نا پسندی میں سر ھلاتا گیا , آخر پر بہت سوچ بچار کرکے گاہک نے کوٹھدار سے کہا وہ سفید بکرا مجھے پسند آگیا آس کا وزن کرکے قیمت بتادی جائے ۔
کوٹھدار دار کے چہرے کا رنگ لال پیلا ہوگیا, تذبذب میں پڑگیا اور خریدار سے کہا, نہیں نہیں اس بکرے کو فروخت نہیں کرنا ہے ۔ خریدار اس بات پر اکڑگیا اور کہا کچھ بھی ہوجائے مجھے بکرا یہی پسند ہے اور یہی خریدنا ہے ,
اس پر دونوں میں بحث ہوئی تکرار ہوئی لوگ جمع ہوئے اور معملہ بزرگوں تک جا پہنچا , بزرگوں نے معملے میں مداخلت کرکے تنازعہ کی وجہ تلاش کرنا شروع کردی ۔
ایک بزرگ نے کوٹھدار سے سوال کیا , آپ نے خریدار سے یہ کہا ہے کہ سارا مال فروخت کرنا ہے , کوٹھدار نے کہا جی ہاں , بزرگ نے کہا , خریدار نے چند بیھڑوں کا تقاضا کیا جو اس کو پسند نہیں آئے , کوٹھدار نے جواب دیا بلکل ٹھیک کہا آپ نے ۔
بزرگ نے کہا اب خریدار کو مذکورہ بکرا پسند آیا اور خریدنے کی خواہش ظاہر کی اور آپ اس کو فروخت نہیں کرنا چاہتے ہو مگر کیوں ۔۔
اس پر کوٹھدار نے جواب دیتے ہوئے کہا , میں جو بولوں گا خدا کو حاضر ناضر رکھ کر بلکل سچ بولوں گا اور سچ کے سوا کچھ نہیں بولوں گا۔ میں نے صبح تمام بیھڑوں کو پانی پلایا, مگر اس بکرے نے پانی نہیں پیا یہ پیسا ہے , جس وجہ سے اس کا وزن کم لگ جائے گا اور میرا نقصان ہوگا ۔ اس لئے بکرا فروخت نہیں کررہا ہوں ۔ یہ ہے ہماری قربانی کی عید اور قربانی کا بکرا ہم صبح صبح جانواروں کو نمک کھلاتے ہیں اور وزن بڑانے کے لئے پانی پلاتے ہیں پھر قربانی کے لئے گاہکوں کو فروخت کیا کرتے ہیں ۔ تاکہ قربانی کا جانور بے ایمانی کے وزن سے وزندار بن جائے ۔