عوامی اور سیاسی حلقوں نے سوپور میں ہوئے پر اسرار دھماکے پر سخت دکھ اور تکلیف کا اظہار کیا ہے ۔ پورے علاقے میں اس وقت صف ماتم بچھ گیا جب یہ خبر سامنے آئی کہ دھماکے سے چار افراد کی موت واقع ہوئی ہے ۔ یہ دھماکہ شیرکالونی سوپور میں ہوا جس کے بارے میں تاحال معلوم نہ ہوسکا کہ دھماکہ کیسے ہوا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دھماکے کی تحقیقات کی جارہی ہے اور بہت جلد حقایق کا پتہ لگایا جائے گا ۔ اس دوران کئی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے ہلاکتوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور مارے گئے افراد کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدردی ظاہر کی ہے ۔ نیشنل کانفرنس کے کئی لیڈروں نے اس دھماکے میں ہوئی ہلاکتوں پر رنج و الم کا اظہار کیا اور انتظامیہ سے پر زور مطالبہ کیا کہ واقعے کی تحقیقات کی جائے ۔ انہوں نے دھماکے کی زد میں آئے افراد کے لئے ایکس گریشیا ریلیف فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔ اپنی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری نے دھماکے سے چار افراد کی ہلاکت کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے جانوں کے ضیا پر افسوس کا اظہار کیا ۔ انہوں نے اپنے تعزیتی بیان میں لواحقین کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی کہ پسماندگان کو اللہ صبر جمیل سے نوازے ۔ کانگریس ، پی ڈی پی اور بی جے پی کے لیڈروں نے بھی اس واقعے پر سخت دکھ کا اظہار کیا ہے ۔ مذہبی اکابروں نے مارے گئے افراد کی رہائش گاہوں کا دورہ کرنے کے دوران وہاں وعظ و نصیحت کی اور دعائے مغفرت کرکے جنت الفردوس کی دعا کی ۔ یاد رہے کہ سوپور میں دلخراش واقع سوموار کو پیش آیا جہاں پر اسرار دھماکے میں چار افراد زخمی ہوگئے ۔ زخمی افراد کو ہسپتال لے جایا گیا ۔ لیکن مبینہ طور زخموں کی تاب نہ لاکر چاروں افراد اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ ان ہلاکتوں کی اطلاع سامنے آتے ہی وہاں لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوگئے اور ان کے تجہیز و تکفین میں حصہ لیا ۔
سوپور دھماکہ کوئی سیاسی واقعہ نہیں ہے ۔ بلکہ یہ انسانی ہمدردی کا بڑا سانحہ ہے ۔ اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ۔ اس دوران سرنکوٹ میں مبینہ طور ایک پرانا اور زنگ آلود شیل بھی پایا گیا ۔ اس شیل کو احتیاط سے نہ اٹھایا جاتا تو یہاں بھی سخت قسم کا واقعہ پیش آنے کا خدشہ تھا ۔ تاہم مقامی آرمی یونٹ نے اطلاع ملتے ہی اس شیل کو وہاں سے ہٹاکر انسانی جانوں کو اس کی زد میں آنے سے بچالیا ۔ کشمیر ایک ڈسٹربڈ ایریا ہے جہاں پچھلے تیس پنتیس سالوں کے دوران بے تحاشا گولی بارود کا استعمال کیا گیا ۔ اس چیز کا کوئی ریکارڈ نہیں پایا جاتا کہ افراتفری کے زمانے میں کہاں اور کتنا بارود جمع رکھا گیا ۔ بہت سی جگہوں پر انسانی جان لینے والے ایسے شیل ہوسکتے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر لوگوں کے لئے تباہی کا باعث بن سکتے ہیں ۔ خاص کر ملی ٹنٹوں نے چھپ چھپاکر ٹینک شکن مائنز زیر زمین رکھیں اور ان کو بھول گئے ۔ ایسا بارود وقفے وقفے سے پھٹ کر لوگوں کی جان لینے کا باعث بنتا ہے ۔ اس سے پہلے کپوارہ کے جنگلوں اور جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں ایسے واقعات پیش آیا جس دوران کئی معصوم جانیں ضایع ہوگئیں ۔ یہاں تک کہ اسکولی طلبہ اس وجہ سے مارے گئے ۔ بارڈر ایریاز میں ایسے حادثات کا پیش آنا تو ممکن ہے لیکن بدقسمتی سے بارود اور دوسرے دھماکہ خیز اشیا پھٹ جانے کے واقعات گنجان بستیوں میں بھی پیش آرہے ہیں ۔ ان دھماکوں سے انسانی جانوں کا ضایع ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ جنگ زدہ علاقوں میں ایسے واقعات اکثر و بیشتر پیش آتے ہیں اور لوگ مارے جاتے ہیں ۔ بے گناہوں کا اس طرح سے موت کے ہتھے چڑھنا تکلیف کا باعث ہوتا ہے ۔ اب کشمیر میں کسی شخص کے لئے یہ گارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ اس کی جان محفوظ ہے ۔ کئی حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سوپور دھماکے کی تحقیقات کی جائے ۔ تحقیقات کے بعد ایسے حادثات کو روکنا بہت مشکل ہے ۔ تاہم عام لوگوں کو اس حوالے سے جانکاری دے کر باخبر کیا جاسکتا ہے ۔ لوگوں کو ایسی صورت میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیا جاسکتا ہے ۔ یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ لوگ اپنی جانوں کے حوالے سے بہت ہی حساس ہیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر بہت جلد آمادہ ہوتے ہیں ۔ کورونا کے طویل عرصے کے دوران جب لوگوں کو وائرس کے خطرناک ہونے اور اس سے بچنے کے تدابیر سے باخبر کیا گیا تو لوگوں نے بہت جلد نصیحتوں پر عمل کرنا شروع کیا ۔ اسی طرح جن جگہوں پر انکائونٹر ہوتے ہیں پولیس کے کہنے پر لوگ وہاں جلد جانے سے احتراز کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ پولیس پوری طرح سے ملبہ ہٹاکر اور مشینری کو استعمال میں لاکر اس جگہ کو محفوظ قرار دیتی ہے ۔ پھر لوگ وہاں جاتے اور حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ مشکوک اور مشتبہ صورتحال کے حوالے سے لوگوں کو جانکاری فراہم کی جائے تو لوگ تعاون کرنے کو تیار ہوسکتے ہیں ۔ یہ لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے ۔ خاص طور سے معصوم جانوں اور کم سن بچوں کی زندگیوں کا بچانے کا مسئلہ ہے ۔ اس مسئلے کو معمولی انداز میں لینا صحیح ہے نہ اس کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔ سوپور میں چار قیمتی جانیں چلی گئیں ۔ دوسرا کوئی ھادثہ پیش آئے تو تعداد بڑھ سکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں سخت خوف و ہراس پایا جاتا ہے ۔