تحریر:ش۔ م، احمد
کئی ہفتوں تک گرمی کی ریکارڈ توڑ گرمی کی شدت سے جھلس رہےکشمیر میں ۲۹ ؍ جولائی کو بارش کی چند بوندیں کیا گریں کہ چہروں پر تازگی اور دلوں میں خوشی کی لہرموجزن کر گئیں۔ کافی انتظار کے بعد موسم کی پہلی بارش نے لوگوں میں نئی اُمید ِزندگانی جگائی‘ لوگوں کو
راحت وسکون کا خدائی پیغام دیا ‘ انسان تو انسان چرند وپرند اور شجر وحجر کو قدرت کا ممنون ِ احسان بنا دیا ۔ کئی ماہ تک جنت نظیر کشمیر کاآسمان بلا توقف آگ برسا تا چلا آرہا ہے ۔ آسمان کی آتش فشانی پر لوگ طرح طرح سے تبصرہ کرتے رہے ‘ کسی نے ا سے گلوبل وارمنگ کا شاخسانہ قرار دیا‘ کوئی اسے یہاں کے جنگلات کے بے دریغانہ کٹاؤ کا نتیجہ بتلا یا رہا ‘ بعضوں نے اس کے ڈانڈے گناہوں اور بد اعمالیوں کی رُت سے ملائے۔ آج علی الصبح ان تمام باتوںاور خیالوں کی تائید ہوئی یا تردید اس بحث بغیر میں الجھے بغیر‘قدرت کے کارخانے نے اپنا فیصلہ صادر کر کے کشمیر کے مطلع پر یکایک بادلوں کاایک اُمید افزا سائبان پھیلادیا ۔یہ بدلیاں بارشوں کی آمد آمد کی بشارت تھیں۔ آسمان کی روش میں بدلاؤ کا سماں دیکھ کر دلوں میں دبے مایوسی کے بادل چھٹ گئے۔ ہاں اُمید کی یہ ٹمٹماتی شمع چند ہی ساعتوں میں غل بھی ہوئی کہ بارش رُک گئی ‘مگر آسمان ابھی تک بادلوں سے اَٹا ہوا نظر آرہاہے ۔ شایدیہ ایک مدہم آوازمیںتبدیلیٔ موسم کی نویدہے ۔ سری نگر میں تادم ِ تحریر دس بارہ منٹ بارشیں ہوئیں ‘وہ بھی عوام الناس کی طرف سےکافی دعاؤں اور آنسوؤں کے نذرانے اللہ کے حضور پیش کئے جانے کے بعد ۔ باوجود یکہ عام لوگ ابھی بھی قدرت کے کارخانے سے بھر پور بارشوں کی اُمید میںاللہ کی کرم فرمائی کے منتظر ہیں ‘فی الحال بارشیں تھم گئی ہیں ۔ شاید اس نایاب نعمت ِ خداوندی کے حصول کے لئے لوگوں کوپھر سے اللہ کے حضور مخلصانہ دعاؤں ‘ آنسوؤں اور تپسیاؤںکا سہارا لینا ہوگا۔ آگے کی مولا جانے‘فی الحال وادی لُو اور حبس کی لپیٹ میں بدستور جکڑی ہوئی ہے۔
شدید گرمیوں کا مطلب ہمیشہ سُوکھااور خشک سالی کا آسمانی کوڑاہوتاہے جس کی کڑوی کسیلی مار سے شہری اور دیہی آبادی کا جینا یکساں طوردوبھر ہوجاتاہے۔ یہی جاں گسل مار گزشتہ کئی ماہ سے یہاں کی پوری آبادی جھیل رہی ہے ۔ نامہربان موسم کے تسلسل سے یہاںچہارجانب ہا ہا کار مچ گئی ‘ فصلیں متاثر ہوئیں‘ آب پاشی کا فطری نظام درہم برہم ہوا‘ندی نال سُوکھ گئے مگرپارے کی تیوریاں ابھی تلک بپھر ی ہوئی ہیں ‘ اس لئے ہم یقین واعتماد کے ساتھ نہیں کہہ جاسکتے کہ کس گھڑی پارہ نشیب کا سفر شروع کر دے ‘ کب فراز کا رختِ سفر باندھے ۔ دنیا کے سبھی انسان قدرت کی منشا کے سامنے بالکل بے دست وپا ہیں ۔ ہمارے ہاتھ میںاس کے مداوا کے طور کچھ بھی نہیں۔ رہا محکمہ موسمیات‘ وہ زیادہ سے زیادہ سائنسی مشاہدات کی بنیاد پر ا س حد تک پیش گوئی کر سکتا ہےکہ مالکِ کون ومکان کب اور کہاں کتنی بارش برسائے گا اور کب اور کدھر درجہ ٔ حرات کی بھٹی گرماکر آگ کا قہر نازل کردے گا ۔ بہر حال یہ فی الوقت کشمیر میں حدت وحرات اور حبس کی جان لیوامہیب سوغاتیں ۔۔۔دن کی بے چینی رات کی بے آرامی‘ پسینے میں ڈوبے بدن ‘ خشک زبانیں‘ پیاسی زمینیں ‘ پنچھیوں کی مایوس کن خموشی ‘ سایہ دار چنار وں کی بے رونقی‘ پینے کے صاف پانی کی زبردست قلت‘ ننھے منے اسکولی بچوں کے لئے گرمائی تعطیلات کااعادہ ‘ بازارِ حیات کی خزاں رسیدگی اور آتشیں موسم سے جڑے دوسرے مسائل کی بھرمار ۔۔۔ یہ سب کچھ ہمارا کچو مر نکال رہا ہے۔ انہی سارے مصائب وشدائد سے کراہتے لوگوں نے خلاصی پانے کی غرض سے گزشتہ دنوں کشمیر کے طول وعرض میں کئی ایک مرکزی مساجد و معابدمیں رحمت ِباراں کے لئے خصوصی دعائیہ مجالس اور اجتماعی توبہ واستغفار کی محفلوں کا اہتما م کیا ۔ ظاہر بین نظروں میں ان عباداتی مجالس کی جزوی قبولیت کے طور اللہ کی جانب سے ایک خفیف اشارہ یہ ملا کہ سنیچر اور ایتوار کی درمیانی شب کو پہلے جنوبی و شمالی کشمیر میںکہیں کہیں بارشیں ہوئیں جن سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ‘ پھر سری نگر کے مطع پر کافی انتظار کے بعد اَبر آلود گی‘ دھیمی دھیمی گڑگراہٹ اور ہواؤںکے ہلکے جھونکوں سے لوگوں کو خوش خبری ملی کہ بار گاہ ِقدرت بر جوش آگئی ہے ‘ قہر مانی پر رحم کا خدائی فیصلہ غالب آرہاہے‘ آسمان کے گرم توے سے گرمی کا جو جہنم دہک رہاہے وہ انسانوں اور جانوروں کے لئے سر د ہوا چاہتا ہے ‘ قبولیت ِ دعا کی گھڑی چند منٹوں کے فاصلے پر آکھڑی ہے۔ اُمید ویقین کا چراغ دل میں جلائے بیٹھےلوگوں نے دفعتاً موسم میں خوش گوار کروٹ کا استقبال خوشی خوشی کیا۔ ہلکی ہلکی بارش تمام مخلوقات کے لئے راحت وتسکین کاسامان بن گئی اور یہ عقیدہ ایک آنکھوں دیکھی حقیقت کا رُوپ دھارن کر گیا کہ جھلستی گرمی سے نڈھال شب ورو ز باذن اللہ قریب الاختتام ہیں ۔ بے شک سری نگر میں بہت کم دورانیے کی بارشیں
’’ سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم‘‘کے مصداق رہیں مگر پھر بھی ان سے حزن ویاس کے وسیع بیابان میں اُمید ویقین کا لہلہاتا ہواباغ سیراب ہوا۔
قابلِ ذکر ہے کہ ۲۸؍ جولائی کووادی کی متعدد مساجد‘ میدانوں اور خانقاہوں میں گناہوں سے توبہ واستغفار کے لئے بڑی تعداد میںلوگ جمع ہوئے‘ بے محابہ اللہ کے حضور پچھتاوے کےآنسو بہائے ‘ نمازِ شوق ادا کر کے ملائے اعلیٰ سے بارشوں کی خیرات مانگی۔ اس سلسلے میںتائب لوگوں کا ایک بڑا اجتماع وسطی کشمیرکے موضع چرارشریف میں منعقد ہوا۔ یہاں آرام فرما مشہور ومعروف ولی ٔ کامل شیخ العالم شیخ نوارالدین نورانی ؒ کی زیارت سے متصل تاریخی ’’نفل ٹینگ‘‘ میں پا برہنہ عقیدت مندوں نے اللہ کی بارگاہ میں سر بسجود ہوکر بارشوں کے لئے مخصوص نمازِ استسقا ادا کی‘ خلوص ِدل سے سجدہ ریز ہوئے ‘ آہوںسسکیوں میں ڈھلی رقت آمیزدعائیں مانگیں: ’’اے مالکِ دوجہاں! ہم عاصی و نافرمان بندے ہیں‘ شدیدگرمی کے تھپیڑوں میںجھلس رہے ہیں‘ مگر تم الرحم الرحمین ہو‘ معاف کرنا تمہاری شانِ علویت ہے‘ ہمارے تمام صغیرہ کبیرہ گناہ یک بار معاف فرما ‘ ہم پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل کر‘ ہمارے زمین زراعت با غات اورپیڑ پودوں کو ہر یالی بخش دے ‘ ہمیں خشک سالی کی تمامی آفات سے محفوظ ومامون رکھ ‘ کشمیر کے چپے چپے پر مینہ کی برکتیں برسا ‘ سُوکھے کے سبب بڑھتی ہوئی کساد بازاری اور ماند پڑیں تجارتوں کو دوبارہ بحال کردے‘ہم پر نگاہ ِ کرم ڈال ‘ ہمارے وطن ِ مالوف پراور پوری دنیائے انسانیت پر قہر وغصہ نہیں بلکہ اپنےمہر وماہ کی بارشیں کر ‘ آسمان کی ناری حرارت کو نورِسرمدی کی بارگاہ سے بدل دے۔‘‘
بارگاہ ِ الہٰیہ سے بھیگی آنکھوں مانگی گئی یہ دُعائیں کب مکمل طور رنگ لائیں گی اور ہمارے حق میں موسم کی مہربانی کا مژدۂ جان فزا کب کاملاً سنا جائے گا‘ فی الحال وہ اللہ کوہی معلوم ہے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ تر دیدہ لوگوں کی سنتے ہوئے اللہ نے چند لمحوں کے لئے ہی سہی موسم کے اُلٹ پھیر سے سری نگر میں مینہ برسا یاتو لگا کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں‘ دیر سویر نا مہربان موسم سے کلی طور نجات پانےکی اُمید بر آنے والی ہے۔ ہمیں کسی صورت اللہ کی رحمت وکرم فرمائی سے نااُمید ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
شدید گرمیوں کاقہر سیدھے طور ہماری معیشت کے لئے ضرب ِ کاری بھی ہے اور ایک منفی و منحوس پیغام بھی ۔ وادی میں بالعموم جون تا ستمبر سیاحتی سرگرمیاں اپنی عروج پر رہتی ہیں ۔ دیس اوردنیا بھر سے لوگ اپنے آبائی علاقوں میں گرمیوں کی شدت سے نڈھال یا دوسرے احوال سے چھٹکارا پانے والےسیاح جوق درجوق اس غرض سے کشمیر کا رُخ چھٹیاں گزارنےکے لئے کرتے ہیں تاکہ یہاں کی ٹھنڈی چھاؤں اور غیر معمولی فطری حسن کی آغوش میں آرام وآسائش کی بے فکر سانسیں لے سکیں ‘ شہرہ ٔ آفاق پہلگام ‘ گلمرگ‘ یوسمرگ‘ سونہ مرگ ‘ ڈل جھیل‘ مغل باغات اور سیاحتی اہمیت کے دوسرے درجنوں مقامات ا ن کی پہلی پسند ہوتے ہیں ‘جو ا نہیں اپنے خنک اور حیات بخش آب وہوا کی جانب بلا وجہ نہیں کھینچتے۔ سیاح اپنی مصروفیات بھری زندگیوں کے غم اورپریشانیوں کو گھروں میں جھاڑ کر یہاں کی سیر وتفریح کے لئے آتے ہیں کہ اس سے وہ دل بہلائی کا بہشتی سامان میسر پاتے ہیں جن کی موجودگی میں کشمیر جنت کا ہم پلہ کہلانے کا اعزاز پاتاہے۔شومی ٔ قسمت سے اگر یہاں شدید گرمیاں یا لُو ان کا استقبال کر نے لگیں تو ظاہر ہے اس سے سیاحتی شعبہ متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا ۔ ایسی صورت حال میں جب سیاحوں کو گھر میں گرمی کی شدت اور باہر بھی حدت وحرات سے پالا پڑے تو وہ کیا خاک کشمیر میں آنے کا من بنائیں‘ اُن کی حوصلہ شکنی ہونا ایک قدرتی امر ہے۔ بایں ہمہ ہم یہ ٹھوس حقیقت نظر انداز نہیں کرسکتے کہ گزشتہ پانچ سال سے کشمیر میں سیاحت کے شعبے کو برق رفتاری سے متواتر عروج مل رہاہے ‘ نتیجہ یہ کہ یہاں کی بگڑی معیشت کو نہ صرف سنبھالا ملا ہوا ہے بلکہ لوگوں کو بہ حیثیت مجموعی معاشی ترقی کی نئی بلندیاں چھونے کا حوصلہ بھی ملا ہے ۔ نیز ٹورازم کے تن ِمردہ میں نئی روح پڑگئی ہے ۔ یہ چیزیں یقیناً جموںکشمیر کی ہمہ گیر معاشی وسماجی ترقی کے خواب کوشر مندہ ٔ تعبیر کر نے میں سنگ ِ بنیاد فراہم کر رہی ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ا ن پانچ برسوں میں کروڑوں سیاحوں نے کشمیر کو اپنے سیر سپاٹے کے لئے پہلی ترجیح اور اولین پسندبنادیا۔ یہ کشمیر کی معجزہ نمائی ہی قرار پاتی ہے کہ آج یہاںلُو اور گرمی کی اذیت ناک لہر کے باوجود بھی خطۂ مینو نظیرکے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں اورکئی ماہ تک کے لئے اُن میں پہلے ہی سے فل بکنگ ہوچکی ہے۔ حتیٰ کہ ٹورسٹوں کے غیر معمولی رَش سے نپٹنے کے لئے ’’ہوم سٹے‘‘ کا نیا نظام بھی رائج کیا گیا ہے۔اس بیچ گرمائی قہر کا جو وسیع وعریض خار زار ہماری معیشت کے لئے نحوست کا قاصد بن کر نمود ار ہوا ‘ اُسے دیکھ کر ہمارے اپنے لوگ پریشان وبددل ہورہے ہیں اور پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ گرمائی لہر سےہماری معیشت بھی الگ سے سہمی ہوئی ہے۔ لوگ خدشہ محسوس کر رہے ہیں کہ اگر موسم کےتیکھے تیور نہ بدلیں تو کہیں معیشت کا سمت ِسفر پھر سے نہ بھی بدل جائےیا اس کی سانسیں پھولیں۔ ا س گھمبیر صورت حال کا قلیل مدتی علاج ومعالجہ صرف اور صرف توبہ واستغفار اور دعا ومناجات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ میری دانست میں اگر ہم نے نہ انفردای واجتماعی گناہوں سے تائب ہوکر ان سےکنارہ کشی اختیار نہ کی ‘ اللہ جل شانہ کی مخلصانہ بندگی کا غیر مشروط حق ادا نہ کیا‘ اپنی انسان دوستی کی دھاک دلوں میں نہ بٹھائی‘ اپنی مسلمانانہ شناخت کی بازیافت کرکے ہم نے اپنوں اور غیروں کے لئے یکساں طور رحمت و رافت اور محبت واُلفت کا مظاہرہ نہ کیا‘ فروعی مسائل اور بے اصل اختلافات کے گورکھ دھندوں میں اُلجھ کر حقیقت کا چہرہ مسخ کر نے کی احمقانہ روش نہ چھوڑدی اور سب سے بڑھ کرامانت ودیانت کا دامن پکڑنے سے احتراز نہ کیا تو معاف فرمائیں تو ہم سو چوہے کھا کر لاکھ توبہ کر نے کا بیڑا کتنا بھی اُٹھائیں ‘ اللہ کی بارگاہ سے ہم پر عذاب کے کوڑے اور عتاب کے فیصلے بدستور نازل ہوتے رہیں گے‘ چاہے ہم عذابِ الہٰیہ کی پکڑ سے نجات پانے کے لئےکتنی ہی نفلی نمازیں پڑھیں‘ نذر ونیاز کی بھرمار کریں‘ اشک وآہ کی سینکڑوں رقت آمیز مجالس کا انعقادکریں‘ پھر بھی آسمان والا ہم زمین والوں پر رحم کا فیصلہ نہیں فرمائے گا۔ اللہ انسانیت کے لئے بلا کسی تمیز وتفاوت کے رفیق وشفیق ہے‘ رحم وکرم اس کا شیوہ وشعار ہے، گناہوں اور لغزشوں اور خطاؤں کی معافی تلافی اُس کی شان ِ کریمی کا اولین تقاضاہے مگر اس کا اپنا دستور یا سنت ِالہیٰ بھی ہے جس کی پابندی کر نے میں اس نے اپنے اولوالعزم پیغمبران ِ کرام علیہم السلام تک کو استثنیٰ نہیں بخشا۔ اس نے یہاںگرمی کا پارہ تھوڑ اسا اوپر کرکے ہم پر اپنے عذاب کا ہلکا سا کوڑا برسا یا اور ہمارے سمیت دنیا کو دکھایا کہ وہ جنت نظیر کے بہشت نما موسم اور ہریالی کی فضا کو لوگوں کے انفرادی واجتماعی گناہوں کی پاداش میں بیک جنبشِ قلم کچھ سے کچھ کر سکتا ہے۔ یہ اسی کریم ورحیم اللہ کا کرنا ہے کہ اس نےانسانوں کے گناہوں خطاؤں کی سزا کے طور جنت نظیر خطے کے ندی نالوں میں سطح ِ آب کم کرکے اُنہیں گویاپیاسا رکھا ہوا ہے‘ پیڑ پودوں کوسُوکھے کےنذر کر دیا ہے‘میوہ باغات کی فصلیں بری طرح متاثر کرکے رکھ چھوڑی ہیں‘ کھیت کھلیانوں اور ساگ زاروں کو خشک سالی کے تھپیڑوں اور سُوکھے کے کوڑوں کوسہنا پڑ رہا ہے۔ بالفاظ دیگر لگ بھگ یہاں کی پوری آبادی کے کا روبار ِ حیات کو بری طرح متاثر کر کے چھوڑا ہے۔ اس سے نجات کی واحد راہ یہ ہے کہ ہم اس کے بتائے اصولوں اور اس کی دکھائی راہوں کی جانب واپس مڑیں تاکہ اس کی مختلف النوع ماروں سے گلو خلاصی پائیں ۔