از : محمد انیس
اسلام میں جنگ کوئی پسندیدہ چیز نہیں ہے، نہ ہی یہ کوئی ایسا کام ہے جسے اہل ایمان کو ضرور اختیار کرنا چاہئے ۔ بلکہ یہ آخری اوپشن کے طور پر اختیار کیا گیا ایک ایسا قدم ہے جو خاص طور پر دفاعی ضرورت کے تحت عمل میں لایا جاتا ہے ۔ اس کے بعد بھی جہاد کے ساتھ فی سبیل اللہ ( اللہ کی راہ میں ) کی قید لگی ہوئی ہے ۔ یہ شرط اسے دنیوی جنگوں سے ممیز کرتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیاء کی بعثت لڑائی جھگڑے کیلئے نہیں ہوتی ہے بلکہ آگاہی کیلئے ہوتی ہے ، تنبیہ اور تاکید کیلئے ہوتی ہے۔ اس لئے قرآن میں تمام انبیاء کی بعثت کو نذیر و بشیر سے تعبیر کیا گیا ہے ( سورہ البقرہ۔ 119, 213, سورہ اعراف۔ 188 سورہ سورہ نساء 165, سورہ نساء 165, سورہ سبا 28, بنی اسرائیل 105, الفتح. 8, ۔۔۔۔۔۔۔). میری معلومات کی حد تک پورے قرآن میں کسی نبی کو محارب نہیں کہا گیا ہے ۔ اس لئے کہ انبیاء کی اصل پوزیشن نزیر و بشیر کی ہوتی ہے نہ کہ جنگجو کی۔ علماء اسلام نے مختلف ذرائع سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کم ازکم 99 صفاتی نام اخذ کئے ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک بھی نام ایسا نہیں جو جنگ و جدال کا معنی پیدا کرتا ہو۔ دین ابراہیمی میں جنگ و جدال اور ٹکراؤ سے کس حدتک اعراض کیا گیا ہے اس کیلئے میں یہاں تین مثالیں پیش کرونگا۔
پہلی مثال۔——- حضرت ابراہیم علیہ السلام نے میسوپوٹامیہ میں کار نبوت کا آغاز کیا تو انہیں آتش نمرود کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ نے معاملہ کو آگے نہیں بڑھایا بلکہ اپنے رب کی رہنمائی میں اپنے متبعین کو لیکر اپنے وطن سے ہجرت کی اور کنعان ( فلسطین) میں جا بسے۔ بعد کے زمانے میں جب انہوں نے کعببے کی تعمیر کی تو اپنے رب سے دعا کی کہ اے میرے رب۔ تو اس شہر کو امن کا شہر بنا(البقرۃ 126).
دوسری مثال۔۔۔۔۔۔ فرعون مصر کے خلاف حضرت موسیٰ کی طویل جدوجہد کے بعد آخرکار اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو لیکر مصر سے نکل جائیں حالانکہ اس وقت مصر میں اسرائیلیوں کی تعداد لاکھوں میں تھی ۔ اگر اس وقت فرعون کے ساتھ جنگ کا راستہ اختیار کیا جاتا تو یقینی طور فرعون کی شکست ہوتی ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حضرت موسیٰ اپنے رب کے حکم سے بنی اسرائیل کو لیکر راتوں رات مصر کی سرحد سے باہر نکل گئے جسے عام طور پرخروج (exodus) کہا جاتا ہے۔
تیسری مثال۔۔۔۔۔۔ تیسری مثال آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے ۔ مکہ کی سرزمین میں آپ ؓکی بعثت ہوئی۔ لیکن لمبی جدو جہد کے بعد جب مسلمانوں پر کقار مکہ کے ظلم و ستم بہت زیادہ بڑھ گئے تو رسولِ خدا نے پہلے ہجرت حبشہ کا حکم دیا ، پھر مدینے کی ہجرت عمل میں ائی۔ اس وقت اگر پہلے اوپشن کے طور پر قریش سے قتال کیا جاتا تو یقینی طور پر فریش کی شکست ہوتی اور مظلوم مسلمان فتحیاب ہوتے ۔ کیونکہ خدا کی نصرت اس کے رسول کے ساتھ تھی ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا
۔ یہاں بھی فرسٹ اوپشن کےطور پر ہجرت کا طریقہ اختیار کیا گیا ، نہ کہ ٹکراؤ اور تصادم کا۔
اوپر کی تینوں مثالیں جنگ و جدال سے پرہیز کی مثالیں ہیں اور تینوں مثالیں عظیم پیغمبروں ںسے منسوب ہیں ۔ دین اسلام میں یہ ایک پروسیس ہے کہ کس طرح اہل ایمان کو ان تدریجی مراحل سے گزرنا چاہئے تاکہ وہ دنیا و اخرت میں کامیابی کی منزلیں طے کرسکیں ۔ یہ گویا ایک لازمہ کے طور پر ہمارے طریقوں میں داخل ہے جو یہ رہنمائی کرتا ہے کہ نزاع کی حالت میں ہمیں پہلے اوپشن کے طور پرکیسا طرزعمل اختیار کرنا چاہئے ۔ آج اگرچہ ہجرت کیلئے بہت ساری مصنوی رکاوٹیں پیدا کردی گئی ہیں،لیکن افہام وتفہیم اور صلح و آشتی کے دروازے پہلے سے زیادہ کھلے ہوئے ہیں۔ انبیاء کے ان طریقوں پر چل کر مسلمانوں کے وہ سارے بین المذاہب مسائل حل ہوسکتے ہیں کہ جن سے وہ اس وقت دوچار ہیں ۔ جنگ یا میلیٹنسی سے فی الواقعہ کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ وہ تو اور بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ جنگ آخری چارہ کار کے طور پر لیا گیا ایک استثنائی قدم ہے۔ قرآن نے جنگ میں ثابت قدمی کی ترغیب دی ہے’ نہ کہ نفس جنگ کیلئے ترغیب دی کہ جنگ ضرور کی جائے ۔ دور جدید کے تمام مسائل معاہدے اور مصالحت سے حل ہوسکتے ہیں جس کی رہنمائی قرآن کریم میں موجود ہے ۔