تحریر:جہاں زیب بٹ
کشمیر کا انتخابی معرکہ گرم ہونے کو ہے اس میں نت نیے کردار شامل ہو رہے ہیں اور پرانے کرداروں کا ضمیر بدل رہا ہے وفاداری تبدیل ہورہی ہے ۔افراد اور پارٹیوں کا تضاد اور جھوٹ عیاں ہو رہا ہے۔مسخرہ بازی کا سیزن آیا ہے اور عوام کو احمق بنانے کا میلہ لگ گیا ہے ۔ لیکن اچھی بات اور دلکش نظارہ یہ ہے کہ جس پر جو پیتی جس کا جو مدعا نعرہ بہر حال ایک ہی ہے” بدلہ ووٹ سے”
پچھلے کچھ دنوں سے دلچسپ اور سنسنی خبریں پڑھنے اور سننے کو مل رہی ہیں جس سے گمان ہو تا ہے کہ یہ الیکشن اب حیات ہے ۔عمر عبداللہ کل تک غرار ہے تھے کہ وہ ایک ایسی یوٹی میں الیکشن میں شامل ہو کر اپنی ذلالت نہیں کریں گے جہاں معمولی چپراسی تبدیل کر نے کے لیے ایل جی کی منظو ری لینا پڑے۔اب یہ خبر گرم ہے کہ عمر عبداللہ سونہ وار اور بیر وہ انتخابی حلقوں سے گھوم پھر کر گاندربل حلقہ انتخاب لو ٹ رہے ہیں اور وہیں سے قسمت آزمائی کررہےہیں ۔کل ان کا نعرہ تھا کہ دفعہ 370 ہٹانے کا بدلہ وو ٹ سے لیکن اب چونکہ وہ مقابلہ کررہے ہیں تو ووٹروں کو مایل کرنا آسان ہے یہ نعرہ لگانا یو ٹی کا بدلہ ووٹ سے۔محبوبہ مفتی تو کل ہی کہہ چکی ہے کہ مسلہ کشمیر کو حل کرنا ہے آر پار کے راستے کھو لنا ہے۔یعنی مسلہ کشمیر کا بدلہ ووٹ سے۔یہ نعرہ گزشتہ پا رلیمانی الیکشن کے دوران فضا میں گونجا اورجب انجینیر رشید کے بچوں نے باپ کے بدلے مہم چلائی تو گھر گھر گلی گلی جیل کا بدلہ ووٹ سے نعرہ بلند ہوا ۔اس سے انجینر رشید کے حق میں ہمدردی اور حمایت کی سو نامی پیدا ہو گیی اؤر وہ سرفراز ہو گیا ۔اپ یہ ایک مقبول عام نعرہ ہے اور ووٹ کی طاقت ہر چیز پر بھاری کہی جارہی ہے اور اس کوہر ظلم ،ہر مصیبت ،ہر شکایت اور ٹھکرا یے جا نے والے ہر مطا لبے کا کارگر بدلہ قرار دیا جا رہا ہے۔خبر آرہی ہے کہ سرجان برکتی جو ٹیرر فنڈنگ کے معاملے میں پابند سلاسل ہیں حلقہ انتخاب شوپیان سے الیکشن میں کو دنے جا رہے ہیں۔ان کی الیکشن مہم کا نعرہ بھی یہی ہو گا جیل کا بدلہ ووٹ سے۔ یہ نعرہ اس گمراہ کن ترانہ کلچر اور جذباتی نعرہ بازی کی موت ہے کفن دفن ہے جس نے سرجان کو جیل کو ٹھر ی میں پہنچا دیا۔الیکشن شور وغل کے درمیان یہ خبر گشت کررہی ہے کہ افضل گورو کا بھایی اعجاز گورو الیکشن میدان میں چھلانگ لگا نے جارہے ہیں ۔ظاہر ہے نعرہ ہو گا پھانسی کا بدلہ وو ٹ سے۔سب سے اہم اور ڈور رس نتایج کا حامل واقعہ ممنوعہ جماعت اسلامی کا الیکشن میں شمولیت کے لیے ہا تھ پاؤں ما رنا ہے ۔جماعت اسلامی پہلی بار الیکشن تو نہیں لڑرہی ہے ۔اس نے اس زمانے میں الیکشن سے پیار کیا جب شیخ محمد عبداللہ سیاسی آوارہ گردی کے محاذ پر کھڑے تھے۔لیکن گیلانی کے خوف و دبدبہ نے اس کی روح آذادی کو پا مال کیا تھا اور اس نے لا چار ہو کر الیکشن سنیاس لیا تھا۔ کشمیر کی آءینی حثیت تبدیل ہو نے کے ساتھ ہی جماعت پر پابندی عاید ہو گیی تو گیلانی ٹولہ کا رعب و دبدبہ ختم ہوگیا اور اس کی تھیوریاں اور خیالی پلاؤ ں کی عمارتیں زمین بوس س ہو گیں۔جماعت اسلامی چلا چلا کر کہہ رہی ہے کہ اس سے پابندی ہٹ جایے تو وہ الیکشن میدان میں واپسی کر ے گی۔سرکار نے پا بندی مزید پانچ سال کے لیے بڑھایی تو کجھ سابق رکن جماعت نے بطور آزاد امیدوار میدان میں انے کا فیصلہ کیا گویا جماعتی نعرہ یہ ہے کہ Ban( پابندی) کا بدلہ ووٹ سے۔حاصل بحث یہ ہے کہ کس کا کیا ایجنڈا ہے کس کا کیا مسلہ ہے لیکن میکانزم مشترکہ ہے راستہ ایک ہی ہے بدلہ وو ٹ سے۔ووٹ کتنا طا قثو ر ثابت ہو گا اس سے کن کن معجزات کا ظہور ہوگا کس کس کا مسلہ حل ہو گا وہ اگے پتہ چلے گا لیکن قی الحال کے طور پر یہ ایک مثبت رجحان ہے سو ج کی تبدیلی کا ثبوت ہے کہ کشمیر میں تیس سالہ بایکاٹ سیاست کا بڑے دھو م دھام سے جنازہ اٹھ رہا ہے