از:ش ،م ،احمد
مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی سربراہ اور بھارت کی واحد خاتون وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کا راج تاج عرصے سے چل رہا ہے۔ میدان ِ سیاست میں وہ اپنی دلیری‘ بے باکی‘عوام دوستی اور حق گوئی کی دھاک بٹھائے ہوئی ہیں مگر کولکتہ کے آر جی کر میڈیکل کالج میں اکتیس سالہ انٹرشپ طالبہ کے ساتھ۹؍ اگست کے منحوس دن جو ناقابلِ معافی مجرمانہ فعل پیش آیا ‘ اس المیے پر ممتا بینرجی کے ڈانواں ڈول رویے نے دیدی کی اُصول پسندی کی نقاب نوچ ڈالی ‘ اُن کی نسوانی شبیہ کو بٹہ لگایا ‘ سیاسی ناقدین کو اُن کی انگشت نمائی کا موقع دیا ۔ اگر یہ کہیں کہ اُن کی شہرت کو پہلی بار بدشگونی کا گہن لگا ہےتو بے جا نہ ہوگا۔
قارئین ِکرام کو بتاتے چلیں کہ ۹؍اگست کو کولکتہ کےآر جی کر میڈیکل کالج میں۳۶ ؍ گھنٹے ڈیوٹی سے تھکی ہاری ایک جواں سال پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹر بیٹی رات کچھ دیرسستانے آرام کر نےہسپتال کے سیمینار ہال میں گئیں۔ اسی اثنا میں پولیس کا ایک بد باطن سول رضاکار ‘ایک سائیکو پیتھ ‘ ایک پاگل کتا ۔۔۔ سنجے رائے ۔۔۔ وہاں آدھمکا ۔ اس نے ڈاکٹر صاحبہ کو تنہا پایا تو شیطانی ہوس کو اشتہا ملی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اس کے چنگل سے بچ نکلنے کے لئے کافی مزاحمت کی مگرپاگل کتے نے زورزبردستی کر کےاس کے ساتھ منہ کالا کیا۔ اسی پر بس نہ ہوا بلکہ پھر اس راکھشس نے اپنے ناپاک ہاتھوں میںحد درجہ حیوانی طاقت بھر کر مظلومہ کا قتل کر ڈالا تاکہ قاتل کی شناخت ہمیشہ کے لئے اخفا کے پردوں میں چھپی رہے ۔ مجرم خام خیالی میں بہکا ہوا تھا اور نہیں جانتا تھا ع
جو چپ رہے گی زبان ِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
جرم کی یہ سرگزشت پوپھٹے ہی زبان زدِ عام ہوئی تو شک کی سوئی فوراً بدمعاش سنجے رائے کی جانب اشارہ کر گئی ۔ پو لیس اُس کے گھر پہنچی جہاں دست درازی اور قتل کے بعد اس نے بے فکری کےساتھ چائے ناشتہ بھی کیا تھا‘ نیند کا مزا بھی لیا۔ گرفتاری کے بعد اس نے پولیس کے سامنے اقبالِ جرم میں کوئی تاخیر کی ‘نہ اپنے کئے پر کسی پچھتاؤے کا اظہار کیا بلکہ کہا جاتاہے کہ اس نےپھانسی کا پھندا تک قبولنے میں کوئی پس وپیش نہ کیا۔شاید وہ اس مغالطے میں تھا کہ ہسپتال کا سیاہ وسپید جاننے والا مجرم گروہ اور اُس مافیا کا سرغنہ ہر قیمت پر اُسےبچا لے گا ۔ اسے کیا معلوم تھاکہ اس کا شریک ِ جرم آقاخود قانون کے شکنجے میں پھنس کر سی بی آئی تفتیش کا سامنا کرنے والاہے۔ہسپتال میں مجرمانہ حرکات میں ملوث اس سرگرم گروہ کو نہ قانون کا ڈر تھا نہ عوام کے غیظ وغصب کا خو ف کیونکہ جب سیاست کا مہربان ہاتھ اُس کی پیٹھ پر شاباشی کی تھپکیاں دے رہاہو تو ڈر کاہے کا؟
عام لوگ توقع کر رہے تھے کہ اس بدترین المیے کے ردعمل میں سب سے زیادہ غصہ ‘ سب سے زیادہ پشیمانی ‘ سب سے زیادہ دُکھ ریاستی چیف منسٹر ممتاجی کو ہوگا ‘ ہونا بھی چاہیے تھا کیوںکہ وہ ریاست کے سیاسی قضاوقدر کی مالکن ہیں‘ خود ایک خاتون ہیں اور سمجھ سکتی ہیں کہ آبروریزی اور قتل کا دوہرا جرم کتنا سنگین ہے۔ لوگ یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ چیف منسٹر صاحبہ بلڈوزر نیائے نہ سہی ‘کم ازکم بھیڑئیے کی بھینٹ چڑھی مظلوم بیٹی کو انصاف دلانے سے کنی نہیں کترائیں گی مگر عوام الناس یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ آخر کیا ماجرا ہے کہ ممتا جی کی ناک کے نیچے ایک جواں عمر بنگالی ڈاکٹر پر قیامت ِ صغریٰ بپا ہوئی تو بھی اُن کے کان پر کئی روز جوں تک نہ رینگی ۔ یہ توبھلا ہو انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کا جس کے بینر تلے سر اپا احتجاج جونئیر ڈاکٹرآگے آئے اور اس جگر سوز المیے کو آناًفاناً اُجاگر کرنے میں ہراول دستے کا کام کیا۔ واقعی یہ دلدوز سانحہ ۲۰۱۲ کودلی میں نربھیا کانڈ سے مماثل تھا جو کانگریسی چیف منسٹر شیلا ڈکشٹ کےسیاسی کئیر ئر کو ختم کر نے پر منتج ہواک۔بنگال میں ڈاکٹروں نے ویسا ہی آندولن شروع کیامگر دیدی ہوا کارُخ دیکھنے میں چُوک کرگئیں اور کئی دن تک اُن کی سیاسی ہانڈی میں کوئی اُبال نہ آیا ۔ آئیں بائیں شائیںکر نے کے علاوہ اُنہوں نےبر وزن ِ شعر اپنی پولیس کو ایک موقع پر خالی خولی ’’چیتاؤنی‘‘دے ڈالی کہ ہفتہ بھر میں تفتیش مکمل کرکے دکھاؤ ‘ ورنہ کیس سی بی آئی کے سپرد ہو گا۔ پولیس کمشنر نے میڈیا پر معاملہ سنسنی خیز بنانے کا الزام دھر کر اپنی پنڈ چھڑالی ۔ حیرت کی بات ہے کہ ٹی ایم سی کی گرم گفتار ممبر پارلیمنٹ مہوا مویترا جو آسمان کی چھت کے نیچے ہر موضوع پر برمحل اپنا تیکھا ردعمل دینے سے کبھی نہیں چوکتیں ‘ اُن کی جانب سے تین چار دن طویل منتھن کے بعد اس سنگین جرم پرایک نیم دلانہ بیان آیا۔
ہم قطعی طور یہ نہیں کہہ سکتے کہ سرکاری ہسپتال میں پیش آئے اس شرم ناک جرم اور الم انگیزسانحے پر ممتابینر جی عام لوگوں کی طرح اندر ہی اندرتلملا نہ اُٹھی ہوں‘ اُن کا دل ڈاکٹر بیٹی کی لہولہاں جسم کے اَنگ اَنگ سے جھلک رہی خونی داستان سے چھلنی نہ ہوا ہو ‘ انسان ہونے کے ناطے وہ بربریت اور درندگی کی اس کہانی پر من سےدُکھی نہ ہوئی ہوں مگر جب اُنہیںانسانی جذبات اور کرسی کے بیچ صرف ایک چیزکو ترجیح دینے کا سنگل آپشن ملا تو وہ اندرکا چھچھورا پن چھپا نہ سکیں اور سنگھاسن کی چار ٹانگوں کو انسانیت پر فوقیت د ے دی ۔ کاش بہ حیثیت انسان اُن کےچشم ِ تصورپر وہ بد نما منظر ایک بار رقصاں ہواہوتا کہ کس طرح ایک وحشی درندہ مظلومہ پر جھپٹ پڑتا ہے ‘ اپنے نوکیلےپنجے اس کے نازک جسم پرگاڑ دیتا ہے‘ بچاری اس وحشی کے آہنی چنگل سے اپنے آپ کو بچانے کی ناکام کشمکش میں عزت بھی کھوبیٹھتی ہے اور زندگی بھی۔ ضمیر کی آنکھ کھولنے اور دل دہلا دینے والی اس سرگزشت نے اگر بانوئے بنگال کی راتوں کی نیند اور دن کا چین مقتولہ ڈاکٹر کے ماتا پتا کی طرح اُڑا دیا ہوتا ‘ اگراُن کا دل مقتولہ کی فلک شگاف چیخ وپکار‘ بچاؤ بچاؤ کی آوازوں ‘ درندے کے سامنےہاتھ جوڑ کر رونے دھونے کے جگرسوز نظاروںسے پسیج گیا ہوتا تو عورت ذات ہونے کے ناطے وہ اولین فرصت میں مظلومہ کی د ادرسی میں سب پر سبقت لے جاتیں۔افسوس دیدی سے ایساکچھ بھی نہ ہوا ۔ گیارہ دن بعد انہوں نے وزیراعظم مودی کے نام ۲۲؍اگست کو ایک مکتوب لکھ کر اس معاملے پر اپنی جچی تلی رائے دی کہ آج کی تاریخ میں جب بقول اُن کےملک بھرمیں ہردن کم وبیش عصمت دری کے ۹۰؍ آبرو ریزی کے وقوع پذیر ہوتے ہیں ‘ یعنی ہر پندرہ منٹ میں ایک بلات کار اور سال میں بتیس ہزار وارداتیں ‘ تو اس سلسلے پر روک تھام کے لئےمرکز کو ایک کھٹور قانون بنانا چاہیے جس میں فاسٹ ٹریک بنیادوںپر پندرہ دنوں کےاندران معاملات کا فیصلہ سنانے کی پابندی ہو اور ملوث مجرموںسے سختی کےساتھ نپٹاجانا چاہیے۔ بلاشبہ یہ ایک پُر از معانی خط ہے اور بین السطور بتا تا ہے کہ اگر روز ۹۰ ریپ جیسے مذموم سانحات رونما ہوتے ہیں تو این ڈی اے کے دس سالہ سرکار میں اب تک ساڑھے تین لاکھ بلات کاری المیے واقع ہوئے ہوں گے ۔ خیر کیاا س خط پر نئی دلی میں کوئی غور وخوض ہوگا‘
ا س بارے میں کچھ زیادہ خوش اُمیدی نہیں ہونی چاہیے۔
ویسے بھی موجودہ دور میں ہر ملک وقوم کے حکمرانوں سے خواب وگمان میں بھی یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ بوقت ضرورت اخلاقی جرائم کے مرتکب لوگوں کے خلاف اور ظلم وزیادتی کے شکار لوگوں کے حق میں کوئی ہائی مارل گراؤنڈ لے کرآدمیت اور عدل گستری کاراستہ اپنائیں گے۔ اس اہم انسانی فریضہ کو سرانجام دینے کے لئے ہمارے پاس گاندھی اور منڈیلا جیسے عظیم لیڈر ہونے چاہیے ‘ مگر کیا ہمارے درمیان ان کی جیسی سیاسی سیرتیں کہیں موجود ہیں ؟ نہیں ۔ اس لئے چاہےوطن کی بیٹیوں کی عزتیں کتنی بھی نیلام ہوجائیں‘ نیتاؤں کی رگِ انسانیت نہ آج تک کبھی پھڑکی ہے نہ آگے پھڑکے گی‘ اگرچہ زبانی کلامی وہ کچھ بھی کہتے پھریں لیکن عمل ہوگا اس کے برعکس ۔ ممتا بینر جی نے مظلومہ ڈاکٹر بیٹی کے تعلق سے آزمائش کی گھڑی میںاسی عام ذہنیت کا بھر پور ثبوت دیا ۔پہلےاس منہ بولتے المیے کی آناکانی کی کیونکہ سیاست کاروں کی نگاہ میں کسی کی عزت جائے یا کسی کی جان نکلے‘ ان کی کرسی ہر قیمت پرسلامت رہنی چاہیے۔ مزید برآ ںدیدی کے لئے یہ حساس معاملہ گھر کے بھیدی والا ہے ‘ اس لئے بھی اُن کے ہاتھ پاؤں بندھےر ہے۔ ’سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا‘ کے مصداق جب کالج کا پرنسپل سندیپ گھوش ٹی ایم سی کے گھر کا بھیدی ہو تو قواعد وضوابط کا بلڈوزر اُس کی لنکا ڈھانے کی جرأت کہاں سے لاتا؟گھوش کو حکمران پارٹی سے رشتہ رابطہ ہو تو کیونکر کسی قانون سے ڈر لگتا ‘ کسی مواخذے کا خوف ستاتا‘کسی مظلوم کی شنوائی کی چٹی پڑتی ؟ یہ سب چیزیں اُس کی منصبی ذمہ داریوں سے یکسر غائب ہو نا کوئی حیران کن بات نہیں ہونی چاہیے ۔ البتہ ڈاکٹر فیٹر نٹی نے اپنی مظلوم ومقتول
کو لیگ کی ناقابل برداشت دُرگت دیکھی تو اپنے دل وجگرمیں درد کی ٹیسیں اور ضمیر پر غم والم کا بھاری بوجھ محسو س کیا ۔ انہوں نے کام چھوڑ ہڑتال کرکے حکومت پر اتنادباؤ بنایا کہ ایمرجنسی سروس کے بغیر ریاست میں پورے کا پورا ہیلتھ کئیر نظام درہم برہم ہوا ‘ تب جاکر حکومت ہوش کے ناخن لینے پر آمادہ ہوئی۔ مجروح جذبات سے جھوج رہے ان ڈاکٹروں کا موقف سچائی پر مبنی ہے کہ آج ایک بنگالی نر بھیا سے خونی کانڈ ہوا‘کل یہ کسی دہلوی ہریانوی پنجابن مدراسن نربھیا کے ساتھ پیش آسکتا ہے ۔ عدم تحفظ کے شدید نفسیاتی دھچکے سے دوچار یہ لوگ ماسوائے پروٹسٹ کے اور کر بھی کیا سکتے؟ مقام ِشکر ہے کہ ان کی صدائے احتجاج صدابصحرا ثابت نہ ہوئی ‘ بہت جلد ریاستی ہائی کورٹ نے مداخلت کرکے عدل کا ترازو سنبھالا تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے ‘ سی بی آئی نے تفتیش کا مورچہ پکڑا تاکہ ملوث مجرموں کا کچا چھٹا سامنے لاکر اُنہیںقرارواقعی سزا دلائی جاسکے۔ اُدھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس چندرا چوڑ نے معاملے کی نزاکت دیکھ کر سنگین جرم کا از خود نوٹس لیا ۔اس سےریاستی حکومت پر عدلیہ کا مزید دباؤ بڑھاتو اسے آٹے دال کے اصل بھاؤ معلوم ہونے لگے ۔
احتجاجی ڈاکٹر بجزاس کےکچھ نہیں چاہتے تھے کہ مقتولہ کو فوری ‘ مکمل اور بے لاگ انصاف دلایا جائے ‘ مظلومہ کی آبروریزی اور قتل کے دوہرے جرم میں ملوث بھیڑیئے کو کالج میں اندر خانہ جن بے ضمیر آقاؤں کی آشیر باد حاصل رہی ‘ان سبھی کو قانون کو کٹہرے میںلا کھڑا کیا جائے‘ آئندہ کوئی بھی ڈاکٹر شفاخانے کے اندر غنڈے موالیوں کے ہتھے نہ چڑھے‘ اس بابت ایسے سخت قوانین وضع کئے جائیں جو طب وجراحت کے شعبے سے وابستہ لوگوں کو احساسِ تحفظ دے سکیں تاکہ کوئی بھی درندہ صفت عادی مجرم کسی ڈاکٹراور نرس سے چھیڑ نے
سے پہلے سوبار اپنے بُرے انجام کا سوچ کر مجرمانہ حرکت سے باز رہے ۔
ابتدا میںممتا حکومت نے احتجاجی ڈاکٹروں کی جائز مانگوںپر کان دھرنا شاید اپنے شایان ِ شان نہ سمجھا۔ حد یہ کہ ہسپتال کیمپس کے اندر پروٹسٹ پر بیٹھے ڈاکٹروں کو ڈرانے دھمکانے کے لئے حکومت نے مبینہ طور ڈنڈوں اور سلاخوں سے لیس پالتو غنڈوں کی فوج اندر جھونک دی جنہوں نے رات کی تاریکی میں دھرنے پر بیٹھنے والوں پرمتشدد انہ دھاوا بولا‘ لیکن مارپیٹ اور تو ڑ پھوڑ کے باوجو د ڈاکٹروں نے ہار نہ مانی ۔ دریں اثنا حکومت نےکالج کے منجھے ہوئےکورپٹ اور مافیا ٹائپ پرنسپل کو‘ جس نے پہلی فرصت میں ریپ اورقتل کے برہنہ کیس کو دبانے کے لئے دوہرے جرم کو’’ آتم ہتھیا ‘‘کہہ کر مقتولہ کے ماں باپ کو گمراہ کر نے کی احمقانہ کو شش کی تاکہ گھناؤنے جرم کااصل راز جھوٹ کے پلندے میں دفن ہو ‘ اور خود اس کامکروہ چہرہ بھی جھوٹ کے پردے میں چھپا رہے۔اس بدقماش وکذب بیان پرنسپل کویہ’’ شاہانہ سزا ‘‘دی گئی کہ مذکورہ کالج سے ٹرانسفر کراکے اُسے ایک دوسرے اہم میڈ یکل کالج کی پرنسپل شپ کی کرسی ملی ۔ بر سر احتجاج ڈاکٹروں نے گھوش کو نئے کالج میں جوائین کرنے سے روک لیا‘ اُس کے آفس پر اپناقفل چڑھایا ‘ اپنے غم وغصہ کی آگ سے حکومتی اسکیم پر پانی پھیر دیا۔ آگے ہائی کورٹ کے آدیش پراُ سے جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔اس وقت سی بی آئی اس کی سیاہ کرتوتوں کی تفتیش کر رہی ہے ۔
ڈاکٹروں کی کامیاب ایجی ٹیشن سے اس بات کا امکان روشن نظر آ رہاہے کہ جرم وسزاکی تاریخ میں شاید بنگال ایک زریں نظیر قائم کرنے والا ہے ۔ آثار بتارہے ہیںکہ مقتولہ ڈاکٹر کو پوراانصاف ملے گا ‘ اس کے قاتل پاگل کتے کو گیتا چوپڑا اور سنجے چوپڑا کے بدنام ِزماںاغوا کاروں اور قاتلوں رنگا اور بلا کی طرح عدالت سےپھانسی کی سز ا یا تاحیات قید ملے گی ‘ قاتل کے حواریوں اور آقاؤں کو بھی کیفر کردار تک پہنچا دیا جائےگا تاکہ جرائم کی دنیا کے دوسرے مگرمچھ عبرت پکڑیں۔ ممکن ہے کوئی حوا کی بیٹیوں کو بھیڑئیوں سے بچانے کے ضمن میں ایک نیا قانون بھی عالم ِ وجود میں لایاجائے مگر کیا محض قانون سازی سے اس ملک و قوم کاسارا بگاڑ یافتہ اخلاقی نظام چست و دُرست ہو سکتا ہے جس کی بیٹیاں رات دن حواس باختہ درندوں کی بھینٹ چڑھتی ہوں‘ جہاںمجرموں کو نہ قانون کاخوف لاحق ہو نہ عوام کا ڈر‘ جہاں بے ضمیر لوگوں کے ہاتھ میںغیر معمولی اختیارات کی باگیں یرغمال بنی ہوں؟ اگر بات صرف قانون کے ڈر اور ڈنڈے کے خوف کی ہوتی تو مہاراشٹر کے ایک اسکول میں اِنہی دنوں چار سال کی دو بچیوں کے ساتھ اسکول کا صفائی کرمچاری ناقابل ِ بیان جنسی زیادتی کا ارتکاب نہ کر پاتا‘ بہار میں خود ایک بیمار ذہن ڈاکٹر شفاخانے میںرات بھر ایک نرس کو اپنی جنسی بھوک کا نوالہ نہ بناتا‘ اُترا کھنڈ سے ایسی ہی ایک اور شرم ناک واردات کی منحوس خبر نہ آتی ۔ بہرصورت کھٹوعہ سے لے کر کولکتہ تک کی داستانِ خونچکاں باور کراتی ہے کہ اکیلا سخت گیر قانون کوئی چمتکارنہیں کرنےوالاجب تک قانون نافذ ہاتھ کرنے والوں کے ذہن صحت مند‘ نیتیں ٹھیک ‘ ہاتھ اُجلے نہ ہوں اور سماج کی اخلاقی بنیادیں انسانیت کے مضبوط ستونوں پر استوار نہ ہوئی ہوں ۔