ایک مقامی خبر رساں ایجنسی نے انکشاف کیا کہ جموں کشمیر کے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی تعداد بتدریج کم ہو رہی ہے ۔ تجربہ کار سینئر ڈاکٹر نوکری سے سبکدوش ہورہے ہیں ۔ اس وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی شدید کمی محسوس کی جارہی ہے ۔ نئے ڈاکٹر اتنی تعداد میں بھرتی نہیں ہورہے جتنی تعداد میں ڈاکٹر ہسپتالوں سے رخصت ہورہے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو بہتر صحت سہولیات فراہم کرنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں ۔ سرکار ان ہسپتالوں کی جدید کاری میں لگی ہوئی ہے ۔ ہسپتالوں کے لئے مبینہ طور بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر تعمیر کیا جارہاہے ۔ یہ بھی دعویٰ کیا جارہاہے کہ جانچ کے لئے جدید آلات فراہم کئے جارہے ہیں ۔ ادھر صورتحال یہ ہے کہ عملے کی کمی کی باعث ایسی سہولیات کا فائدہ اٹھانا مشکل ہورہاہے ۔ طبی عملے کی عدم موجودگی پر قابو پانے کے بجائے اس میں اضافہ ہورہا ہے ۔ اس وجہ سے عوامی حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ صحت اور تعلیم زمانہ حال میں پوری دنیا میں ترجیحات میں شامل کی ہیں ۔ عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر کوشش کی جارہی ہے کہ عوام کو معیاری تعلیم اور بہتر صحت سہولیات فراہم کی جائیں ۔ ترقی یافتہ اور امیر ممالک میں مفت صحت سہولیات فراہم کی جارہی ہیں ۔ ہندوستان کی مرکزی سرکار نے اس حوالے سے اہم قدم اٹھاتے ہوئے ہر مریض کے لئے 5,00,000 لاکھ روپے تک علاج معالجے کی مفت سہولیات فراہم کرنے کی اسکیم متعارف کرائی ۔ یہ سہولت سرکاری ہسپتالوں کے علاوہ تمام بڑے نجی ہسپتالوں کے اندر بھی رائج ہے ۔ اس سے مریضوں خاص کر غریب اور نادار مریضوں کے لئے بڑی آسانی پیدا ہوگئی ۔ ہر شہری کو بہتر صحت سہولیات فراہم کرنے کی طرف یہ بہت بڑا اقدام مانا جاتا ہے ۔ لیکن کچھ عرصے سے شکایت کی جارہی ہے کہ اس مد میں فنڈس فراہم کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا جارہاہے ۔ ہسپتالوں کی طرف سے اس اسکیم کے تحت دی گئی سہولیات کے عوض واجب الادا رقم پچھلے کئی مہینوں سے رکی پڑی ہے ۔ یہاں تک کہ ہسپتالوں میں اس سہولت کو لے کر سوالات اٹھائے جارہے ہیں ۔ اب مریضوں کو ایسی سہولیات فراہم کرنے کے لئے انتظار کرایا جاتا ہے یا سرے سے انکار کیا جاتا ہے ۔مجموعی طور ہسپتالوں کا نظام سخت بگاڑ کا شکار بتایا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے ڈاکٹروں اور دوسرے طبی عملے کی کمی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے ۔
صحت کے معاملے میں لاپرواہی کسی بھی ملک کے لئے خوش آئند بات نہیں ہے ۔ سرکاری اداروں کے لئے یہ بات پریشانی کی باعث ہے کہ ملازم بڑی تیزی سے سبکدوش ہورہے ہیں اور نیا عملہ تعینات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی جارہی ہے ۔ اسکول ، پولیس ، فوڈ سپلائز اور ایسے ہی کئی دوسرے محکموں میں عملے کی کمی کی وجہ سے کام کاج پر منفی اثرات پڑرہے ہیں ۔ ملازموں کی سبکدوشی کی وجہ سے ان محکموں کے کام میں بڑے پیمانے پر تساہل اور سستی پائی جاتی ہے ۔ کئی کئی راشن سٹوروں کا چارج ایک ملازم کو سونپا گیا ہے ۔ اس وجہ سے لوگوں کو راشن حاصل کرنے میں دقت پیش آرہی ہے ۔ اسکولوں میں اساتذہ کی کمی پائی جاتی ہے ۔ پولیس کے علاوہ ٹریفک پولیس محکمہ کئی سالوںسے عملے کی کمی کا رونا رورہاہے ۔ آئے دن کے حادثات کی بڑی وجہ عملے کی کمی بتائی جاتی ہے ۔ اب ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی کا مسئلہ سامنے آیا ہے ۔ اس دوران کہا جاتا ہے کہ مریضوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہورہاہے ۔ خاص طور سے کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے ۔ ادھر نئے نئے وائرس سامنے آکر لوگوں کے لئے خطرے کا الارم بجارہے ہیں ۔ سرکار کی طرف سے ہدایت دی جارہی ہے کہ کسی قسم کے وائرل انفکشن کی صورت میں فوری طور ہسپتال کا رخ کیا جائے ۔ وہاں آکر ڈاکٹروں کی توجہ حاصل کرنا مشکل ہورہاہے ۔ ڈاکٹر قلیل تعداد میں موجود ہیں ۔ ان میں بیشتر ڈاکٹر ابتدائی تربیت لے رہے ہوتے ہیں ۔ ان سے صحیح علاج اور مشورہ لینا ممکن نہیں ۔ اس کا خمیازہ عوام خاص کر غریب مریضوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ ہسپتالوں میں عملے کی کمی کو ترجیحاتی بنیادوں پر دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہسپتالوں میں آئے روز علاج معالجہ نہ ملنے کی وجہ سے اموات ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ ہسپتالوں میں اس وجہ سے ہنگامے ہورہے ہیں ۔ ڈاکٹروں کے ساتھ ہاتھا پائی اور گالی گلوچ کیا جاتا ہے ۔ اس پر قابو پانے کے لئے قانونی چاری جوئی کی جارہی ہے ۔ لیکن مسئلہ کو جڑ سے ختم کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ فرض شناس ڈاکٹروں کی تعیناتی کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ طبی عملے میں اضافے سے کئی مسائل پر قابو پانا آسان بن سکتا ہے ۔ اس مسئلے کو حل کرنا مشکل نہیں ہے ۔ دور دراز کے دیہات میں بسنے والے عوام اس کا پہلا شکار بنتے ہیں ۔ مقامی سطح پر کوئی ایسے ڈاکٹر موجود نہیں جن سے اطمینان بخش علاج معالجہ کرایا جاتا ۔ بڑے ہسپتالوں میں آئیں تو داخلہ ٹکٹ حاصل کرنے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں ۔ پھر او پی ڈی میں صبح سے شام تک انتظار کرنا پڑتا ہے جب ہی اندر جانے کی اجازت مل جاتی ہے ۔ وجہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کی کمی ہے ۔ اس مسئلے کو فوری طور حل کرنے کی ضرورت ہے ۔