ش ،م ،احمد
یکم اکتوبر ۲۰۲۴جموں کشمیر کی سیاست میں اپنے انمٹ نقوش مر تب کر کے ایک اہم تاریخی حوالے کی حیثیت سے ہمیشہ یاد کیا جائے گاکیونکہ اس روز آزادنہ ومنصفانہ اسمبلی الیکشن کا تیسرا پڑاؤ بھی آرام واطمینان سے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ اللہ کا شکر ہے۔ تیسرے مرحلے میں ۴۰ ؍سیٹوں پر خاص طور نیشنل کانفرنس‘ کانگریس‘ بھارتیہ جنتا پارٹی‘ پیپلز کانفرنس‘ اپنی پارٹی ‘ عوامی اتحاد پارٹی کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار‘ ممنوعہ جماعت اسلامی سے وابستہ آزاد کنڈیٹس کے علاوہ پی ڈی پی دورِحکومت میں سابق نائب وزیراعلیٰ رہ چکے مظفرحسین بیگ سمیت کئی دوسرے نئے چہرے آزاداُمیدواروں کی صورت میں انتخابی معرکے میں پیش پیش رہے۔ الیکشن فرےمیں شمالی کشمیر کے حلقۂ انتخاب بانڈی پورہ سے ممنوعہ جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ ایک ایسے آزاداُمیدوار جو جیل سے رہائی پاچکے ۳۶؍برس کے جوان سال شہری ہیں ۔اُن کا نام مسمی محمد سکندر ملک ہے۔ان کی خصوصیت یہ ہے کہ اُن کے پیر میں پولیس نے جی پی ایس ٹریکر فکس کیا ہواہے‘ تاکہ چوبیسوں گھنٹے اُن کی نقل وحرکت بلکہ ہر جنبش ِ قلب تک پولیس کی نوٹس میں مسلسل آتی رہے ۔ اسمبلی الیکشنز کی تاریخ میں یہ ایسا پہلا اُمیدوار ہونے کا اختصاص رکھتے ہیں۔
بہر کیف اگر ہم یہ کہیں کہ اس بار جمہوریت کے جشن نے سنہ ستاسی کی بدنما چناؤی دھاندلیوں اوراُن کے شدید ردعمل میں سنہ نوے کی اَندھ کاریوں دونوںکو یکسر قصۂ پارینہ بنا ڈالا تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا ۔ بعد از مدتےجموں کشمیر میں جمہوریت کی اس قابلِ داد جیت کا سارا کریڈٹ سپریم کورٹ آف انڈیا‘ الیکشن کمیشن آف انڈیا اور حکومت ِہند کو جاتا ہے جن کے مجموعی تعمیری اور مدبرانہ کردار سے یہ سب کچھ ممکن العمل بنا کہ لوگ جوق درجوق پھر سے مین اسٹریم سیاست کے کل پُرزے بننے پر خوشی خوشی آمادہ ہوئے۔ لیفٹنٹ گورنر شری منوج سنہا نے متاثرکن ووٹر ٹرن آؤٹ پر اپنے اطمینان کا بھرپور اظہار کرکے یوٹی میں جمہوریت کے خوش نما سفر کو اپنے دست تعاون کا مبارک تاثر دیا۔
چناؤ ی عمل کے تھرڈراؤنڈ میں ۳۹۔۱۸؍ لاکھ ووٹروں کو حق رائے دہی کا جمہوری استحقاق حاصل تھا‘ اُن پر صرف یہ ذمہ داری عائد تھی کہ اپنے چہیتے اُمیدوار کے حق میں اپناووٹ ڈالنے۵۰۶۰ پولنگ اسٹیشنوں میں سے اپنے لئے مقررہ شدہ مرکز پربے خوف حاضری دیں ‘ اپنی من مرضی کے اُمیدوار کی حمایت میں ای وی ایم مشین کا بٹن دبائیں اورآرام سے چلتابنیں۔ ہر جگہ ووٹروں نے اپنی یہ ذمہ داری بڑے احسن طریقے سے نبھائی ‘ کسی بھی ایک پولنگ بوتھ سے لڑائی جھگڑے یا ناچاقی اور بدسلوکی وغیرہ کا کوئی ایک بھی نا خوش گوار واقعہ رپورٹ نہ ہوا ۔ تینوں فیزز میں ماحول شانت رہا‘ فضا پُرسکون رہی اور پولنگ کا سلسلہ صبح سات سے شام چھ بجے تک بحسن وخوبی جاری و ساری رہا ۔
پہلے دوچرنوں کی طرح تیسرے دورانیے کی انتخابی کشاکش میں دونوں صوبوں میں کل ملاکر ۴۱۵؍ اُمیدواروں کی دھڑکنیں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تیز ہو تی رہیں کیونکہ اُن کی قسمت کا فیصلہ ووٹر ای وی ایم مشینوں کے بٹن دبا دباکر لمحہ بہ لمحہ اپنے اندر محفوظ کرتے جارہے تھے۔ جن اُمیدواروں کو اپنی جیت کی اُمید تھی‘ اُن کے چہرے ہشاش بشاش اور جنہیں ہار کا خدشہ لاحق رہا‘اُن کے چہروں سےپریشانی کے آثار چھلکنا فطری تھا۔ بایں ہمہ ای وی ایم ۸؍اکتوبر کو کیا نتائج اُگل دیں گی ‘ اس پر سیفالوجسٹ چاہے جو بھی اٹکلیں لگا نا چاہیں لگائیںمگرسرپرائز اور سسپنس کا پردہ فی الحال برقرار ہے ۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ووٹر وں کاٹرن آؤٹ ۶۵عشاریہ۵۸ فی صد رہا ۔ یہ آنکھڑے صاف بتا رہے ہیں کہ رائے دہندگان نے روایت شکنی کر کے جم کر اپنے جمہوری فریضےکی ادا ئیگی کر کے ایک نئی تاریخ رقم کرڈالی ہے۔ غور طلب امرہے کہ گزشتہ دو انتخابی مراحل کے مقابلے میں اختتامی راؤنڈ میں آنے والے حلقوں کامحل وقوع سرحدی جبل و دشت سے لے کر وسیع وعریض میدانی علاقوں تک پھیلاہوا تھا ‘ اس لئے سیکورٹی کا غیر معمولی بنددبست کرنا متعلقین کے لئے ایک بہت بڑا چلینج تھا ۔ چناں چہ سخت ترین حفاظتی انتظامات کے درمیان پولنگ شروع ہوئی اور ا ختتام کوپہنچی ۔ اس مرتبہ متاثر کن شرح ووٹنگ نے پہلے اور دوسرے مرحلوں پر اپنی عددی
بر تری کا شاندار ریکارڈ قائم کیا ۔ پولنگ مراکز میں صبح سویرے سے لمبی لمبی لائنوں میں ایستادہ مردوزن اور پیروجوان نے جمہوریت کی پکار پر جس جوش وخروش سے لبیک کہا وہ اس امرواقع کا کھلا اعلان تھا کہ لوگوں کو مروجہ سیاسی و انتظامی سسٹم پر پوراپورا یقین واعتماد ہے ‘ اُنہیں اپنے من پسند نمائندوں پر بھی بھروسہ ہے کہ وہ اسمبلی جاکر ان کے تشنہ ٔ تعبیر خوابوں‘ خواہشوں اور اُمیدوں کی تکمیل میں سنجیدگی سے کام کریں گے اور ان کی بھلائی کی اسکیمیں وضع ہوں گی۔
یہ ایک کھلی کتاب ہے کہ الیکشن کے تینوں مراحل پر الیکٹرانک میڈیا جہاں کہیں مائک اور کیمرے لے کر انتخابی عمل کے مختلف پہلوؤں کو اُجاگر کر نے گیا اور جس کسی پولنگ مرکزپر ووٹروں کی دلی مرادیںجھانکنے کی کوششیںکیںتو اُنہوں نے مختلف مذاہب ماننے ‘ مختلف زبانیں بولنے ‘ مختلف ثقافتی پس منظر اور مختلف معاشی رتبہ رکھنے والوں میں کچھ چیزیں قدرِ مشترک پائیں مثلاً یہ کہ وہ ایک عرصے بعد ایک ٹھوس مقصد کے ساتھ اپنا ووٹ کا سٹ کر نے کا موقع پار ہے ہیں اور یہ کہ موٹے طو پر وہ ایک ایسی نمائندہ حکومت کا سپنا ساکار ہونے کی اُمید رکھتےہیں جوعوام کے لئے ایک مصم عزم اور مضبوط ارادے کے ساتھ اَنتھک کام کرسکے‘ جو لوگوں کے بلدیاتی مسائل بشمول پانی بجلی نالی سڑک پُل اسکول شفاخانہ جیسے عمومی مسئلوںکا نپٹارا کرسکے‘ جواُنہیں بے روز گاری اور مہنگائی کےآدم خور عفریتوں سے نجات دلاسکے‘ جواُنہیں ترقی کے آسمان چھونے کی راہیں نکال کھوجے‘ جواُن کی نئی نسل کو تعلیم کے نور سے آراستہ کرسکے‘ جواُنہیں صحت وشفایابی کی سہولیات فراہم کرسکے‘ جواُن کے دُکھ درد کی نتیجہ خیز شنوائی کر سکے‘ جو اسیران ِ زندان کی ازہ راہ ِ انسانیت رہائی کا پروانہ ممکن بناسکے‘ اور سب سے بڑھ کر جوریاستی درجے کی بحالی سے اُن کی کھوئی ہوئی سیاسی شناخت کی بحالی کر واکے اس شناخت کو مستقلاً تحفظ دے سکے۔ عوام کی ایسی پسندیدہ حکومت عملی طور وجود میں آتی بھی ہے یا نہیں‘ اس بارے میں کچھ کہنا قابل از وقت ہوگا۔ قابلِ ذکر ہے کہ دہائیوں کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب ووٹر وں نے غیر ریاستی ایکٹروں سے الیکشن بائیکاٹ کال کی کوئی آواز سنی اور نہ بائیکاٹ کال کا توڑ کر نے والے امن وقانون کے رکھوالوں سے کسی دباؤ یاخوف کا اُنہیں سامنا رہا۔ ان تمام آلائشوں سے پاک پُرامن ماحول اور آزاد فضا میں ووٹروں نے آرام سے اپنے ووٹ کا حق خوشی خوشی استعمال کیا ‘ انہوں نے کسی جھنجھلا ہٹ یا پریشانی کے بغیر اطمینانِ قلب سے اپنی من پسند جماعتوں کا دامن تھا ما یا آزاد اُمیدواروں کی تائید وحمایت میں ان کی ہم نوائی کی۔
اب تمام نظریں ۸؍اکتوبر کے نتائج پر ہیں ۔ کیا اس روز جموں کشمیر کی سیاست میں ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۵ کی طرح کوئی یادگار زلزلہ آئےگا کہ سیاسی بساط کی ہرچیز تلپٹ ہوجائے یا معمول کے مطابق ایک کمزور یوٹی حکومت کی زُمام کار کسی بڑے سیاسی گروپ کے ہاتھ آئے ‘ اس بارے کوئی حتمی چیز ۸؍اکتوبر کی دوپہر تک صاف ہونے کی توقع ہے۔جادوئی نتائج جو بھی ہوں مگر یہ بات تمام سیاسی لیڈروں کو پلے باندھ لینی چاہیے کہ اس بار حکومت کی ہیت ِترکیبی ایسے عناصر سے عبارت ہو جو اول ڈیلیور کرسکیں ‘ دوم جو ماضی کی تقلید میں عوامی توقعات کو پس ِپشت ڈالنے کی بھول نہ کریں کہ لوگوں کو پھر جمہوریت پر اعتماد اٹھ جائے بلکہ نئی حکومت کو عوام کے ساتھ کئے گئے اپنے تمام وعدوں کا ہر حال میں پاس ولحاظ رکھنا ہوگا۔ شایدا س بار سرکار سنبھالنا سربراہِ حکومت کے لئے عملاً کانٹوں کا تاج ثابت ہوگا کیونکہ دونوں صوبوں کےلوگوں نے نئی حکومت سے بہت ساری خوش اُمیدیاں وابستہ کی ہوئی ہیں اور یہ سرکار خصوصاً دہائیوں سے بے قائد عوام کے لئے تعمیر وترقی کے رُکے پڑے پہیے کو پھر سے گردش میں لانے کی مردانہ وار کاوشوں کی اہل ثابت ہونی چاہیے ۔
اس وقت بہت سارے مبصرین سان وگمان کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے بے حد متضاد پیش گوئیاں کرتے ہیں کہ آنے والی یوٹی حکومت کس کی ہوگی اور کس کی نہیں ہوگی۔ زیادہ تر تجزیہ نگار معلق اسمبلی کی تھیوری مان کر نئی حکومت کے سیاسی چیستاں کوحاتم طائی کے سات سوالوں جیسی کہانیاں بنا تے پھررہےہیں۔کسی کی نگاہ میں حکومت بنانے کا سہرا سیدھے طور نیشنل کانفرنس اور انڈین نیشنل کا نگریس کے سر بندھے گا ۔ اُدھر زیادہ ترسیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ کانگریس نے ہریانہ الیکشن کو پہلی ترجیح دے کر جموں کشمیر الیکشن کو لائٹ میں لیا‘ یہی وجہ ہے کہ اس کی انتخابی مہم جموں میں پھیکی پھیکی رہی ‘ لوگ اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ پارٹی نے جموں کے عام آدمی کےدواہم مطالبوں کی اَن سنی کردی کہ سٹیٹ ہُڈ کی بحالی ہو اور دربار مُو کانظام واپس لایا جائے تاکہ جموں کی تجارتی رونقیں مزید ماند نہ پڑیں‘ کوئی اپنے طن وتخمین کی تعمیر پر یہ بھوش وانی کرتاہے کہ۸؍اکتوبر کو بی جے پی جموں میں زیادہ تر نشستوں پر جیت درج کر کے وادی کے آزاد اُمیدواروں ( جن میں زیادہ تر کو بھاجپا کے پراکسی کنڈیٹ تصور کیا جاتاہے ) بشمول پی ڈی پی ‘ اپنی پارٹی‘ پیپلز کانفرنس‘ عوامی اتحادپارٹی ‘ ممنوعہ جماعت اسلامی کے آزاد اُمیدواروں اور دوسرے نووارادنِ سیاست کو اپنے ساتھ ملا کر پہلی باراپنی سربراہی والی مخلوط حکومت تشکیل دے گی ‘ کوئی این سی اور پی جے پی کو ہی مستقبل کے کولیشن پارٹنر زکی صورت میں دیکھتا ہے‘ کوئی بھاجپا ‘ پی ڈی پی‘ اے آئی پی کو مخلوط حکومت کےاجزائے ترکیبی شمار کرتا ہے ۔ کوئی حکومت سازی کے ضمن میں این سی کانگریس اور پی ڈی پی سہ جماعتی اتحاد کو خارج از امکان قرار نہیں دیتا‘ کوئی کسی اور ہی سیاسی کھچڑی پکائے جانے کا خواب بیان کرتاہے۔ غرض معاملہ جتنے منہ اتنی باتیں والا بنا ہواہے ۔ اصولاً یہ ایک دیرینہ سیاسی روایت ہے کہ سیاست میں نہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے نہ کوئی مستقل دشمن۔ وقت کے ساتھ دوستی اور دشمنی کے لبادے اَدلتے بدلتے ہیں ۔ تاریخ شاہد عادل ہے کہ شیخ محمد عبداللہ جیسی قد آور شخصیت نے جس کانگریس کے خلاف ترک ِ موالات کاآوازہ بلند کیا اور اس قومی پارٹی کو گندی نالی کا کیڑاتک ہونے کا ناموزوں نام دیا‘ اُسی عظیم سیاسی قائد نے آگے زمانے کے سردوگرم دیکھاتو وزیراعظم اندرا گاندھی سے ناطہ جوڑ کر ایکارڈ کے صدقے این سی کانگریس ملی جلی حکومت کی قیادت کی۔ وقت کی کروٹ میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ کاتختہ پرائم منسٹر اندراجی نے ۸۴میں اُلٹ کر خواجہ غلام محمد شاہ کوان کی جگہ وزارتِ اعلیٰ کا منصبِ جلیلہ عطاکیا ۔ اس سیاسی جفاکاری کے باوجود ۸۷ میں راجیو فاروق اکارڈ کی شکل میں صدر نیشنل کا نفرنس نےاپنا ہاتھ راجیو جی کے ہاتھ میں بصد شوق دیا اور آج بھی این سی انڈیا الائنس کی پہلی صف میں شامل ہے ۔ ان تلخ سیاسی حقیقتوں کو زیر نظر رکھتے ہوئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ آنے والی حکومت کے حوالے سے سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ یہ ناقابل ِ بھروسہ اونٹ جو بھی کروٹ لے‘ ہماری کوشش اور خواہش یہی ہونی چا ہیے کہ اس سےاول تاآخر جموںکشمیر کے درد کادرماں ہو اور ہماری سیاسی نیا کسی نہ کسی طرح پار لگے ۔
