الیکشن کا عمل قریب قریب مکمل ہوچکا ہے ۔ اب نتائج اور نئی سرکار بنانے کا انتظار ہے ۔ اس دوران کئی حلقوں نے کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کا مسئلہ اٹھانا شروع کیا ہے ۔ اس حوالے سے یہ بات بڑی اہم ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی ہر جماعت اور امیدوار نے اپنے الیکشن منشور میں وعدہ کای ہے کہ بے دخل ہوئے پنڈتوں کو واپس اپنے گھروں کو لوٹ جانے میں مدد دی جائے گی ۔ بیشتر حلقے پنڈتوں کی واپسی کو ایک پیچیدہ اور مشکل مسئلہ قرار دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو آسانی سے حل نہیں کیا جاسکتا ۔ بلکہ اس معاملے میں کئی حلقوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے ۔ اس دوران یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اکثر پنڈت گھرانے واپس لوٹنے پر آمادہ نہیںہیں ۔ ان میں سے بیشتر بلکہ پوری نسل اب کشمیر سے باہر مختلف شہروں میں آباد ہوچکی ہے ۔ یہ لوگ وہاں نوکریاں کرتے ہیں اور خاصی کمائی کرتے ہیں ۔ وہاں انہوں نے شادیا کی ہیں اور ان کے کم سن بچے کشمیر واپس آکر یہاں شاید ہی ایڈجسٹ ہوسکتے ہیں ۔ ان کی زندگی کا معیار بدل چکا ہے ۔ رہن سہن کا ڈھنگ بدل چکا ہے ۔ خاص طور سے یہ مخصوص آب و ہوا کے عادی ہوچکے ہیں ۔ یہی وجہ ہیں کہ واپس کشمیر آکر یہاں آباد ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ انہیں یہاں جو مراعات ملنی چاہئے کوئی بھی حکومت تادیر یہ مراعات نہیں دے سکتی ہے ۔ ممکن ہے کہ واپسی کے کچھ سال ان کے ناز نخرے اٹھائے جائیں ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ خود بخود دوری پیدا ہوجائے گی ۔ کشمیر میں ایسے حالات نہیں ہیں کہ یہاں ان کی ساری آبادی کو اور جوان ہونے والے بچوں کو روزگار مل سکے ۔ سرکار نے پہلے ہی ایسے کئی اقدامات اٹھائے ہیں جن کی وجہ سے نوکری ملنا بلکہ کسی بھی طرح کا روزگار حاصل ہونا مشکل ہوگیا ہے ۔ موجودہ صورتحال کے اندر جب پنڈت دوسرے شہروں میں آباد ہیں مظلوم جان کر انہیں ایک سے ایک بڑھ کر مراعات مل رہی ہیں ۔ ان کے لئے مالی مراعات کا بڑا پیکیج زیر عمل ہے جس کے تحت انہیں کافی کچھ مل رہاہے ۔ گھر واپس آجائیں تو سب کچھ چوپٹ ہوجائے گا ۔ کوئی عقل والا محض گھر کی چاردیواری کے لئے ایسی تمام سہولیات چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا ہے ۔ پنڈتوں کے لئے یہ مسئلہ بھی پایا جاتا ہے کہ سرینگر یا ایسی شہری آبادی میں رہنے والے پنڈتوں نے اپنی ساری پراپرٹی فروخت کی ہے ۔ ان کے لئے ممکن ہے کہ سرکار مفت اراضی فراہم کرے یا رہائش کے لئے گھر بار کا انتظام بھی کرے ۔ لیکن اپنے آبائی علاقوں سے دور اجنبی ماحول میں رہنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے کہ ایسے شہروں میں رہا جائے جہاں یہ پچھلے تیس سالوں سے آباد ہیں ۔ اس طرح کی پیچیدگیاں موجود جس وجہ سے پنڈتوں کی واپسی مشکل نظر آرہی ہے ۔ سیاسی جماعتوں نے مائیگرنٹ پنڈتوں کی واپسی کا نعرہ تو ضرور لگایا ہے لیکن اس نعرے کو عملی شکل دینے کے لئے تفصیل بتانے سے کنی کترائی ہے ۔ ان حلقوں کے پاس اس حوالے سے کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے جس کو عملا کر واقعی پنڈتوں کو واپس لایا جاسکتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ پنڈتوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے ایسا نعرہ دیا گیا ہے ۔
پنڈتوں کی واپسی کے لئے کئی بار ماحول کو بہتر بنایا گیا ۔ سیکورٹی حلقوں نے اپنے طور کئی علاقوں میں حالات کو پنڈتوں کی واپسی کے لئے مناسب بنادیا ۔ ایسے موقعوں پر پنڈت واپس آتے تو انہیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔ ان موقعوں پر جو پنڈت واپس اپنے گھروں کو لوٹے یا سیکورٹی کواٹروں میں رہائش اختیار کی وہ بڑے آرام سے یہاں زندگی گزاررہے ہیں ۔ جن پنڈت نوجوانوں کو پی ایم پیکیج کے تحت نوکریاں فراہم کی گئیں وہ واپس آگئے اور بغیر کسی سیکورٹی حصار کے ڈیوٹیاں دے رہے ہیں اور تنخواہیں بھی آرام سے وصول کررہے ہیں ۔ اس دوران ٹارگٹ کلنگ کے کئی واقعات ضرور پیش آئے ۔ لیکن ان پر جلد ہی قابو پایا گیا ۔ بہت سے پنڈت لیڈر جانتے ہیں کہ ان کی گھر واپسی میں اب کوئی اڑچن موجود نہیں ہے ۔ ان میں کئی ایک نے برملا کہا ہے کہ ان کی بے دخلی کو انسانی حقوق کا مسئلہ بناکر اس کو بیرونی دنیا میں بطور ایک کارڈ استعمال کیا گیا ۔ بلکہ اس کارڈ کا مسلسل استعمال کیا جارہاہے ۔ یہ پنڈت لیڈر مطالبہ کررہے ہیں کہ انہیں استعمال کرکے جو سیاسی فائدہ اٹھایا گیا اس کا انہیں کچھ نہ کچھ معاوضہ ملنا چاہئے ۔ بلکہ یہ لوگ بہت زیادہ معاوضہ مانگ رہے ہیں ۔ ادھر الزام لگایا جاتا ہے کہ سیاسی حلقوں کو ابھی پنڈت مائیگریشن کے نام پر کچھ مزید فوائد حاصل کرنے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی واپسی کے لئے عملی اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں ۔ موجودہ حکومت سے بہتر اس کے لئے کوئی حکومت عملی اقدامات نہیں اٹھاسکتی ہے ۔ بھاجپا سرکار اس مسئلے کو حل کرنے پر آئے تو راتوں رات مسئلے کا کوئی بہتر حل نکال سکتی ہے ۔ تاہم اس کے لئے خود پنڈتوں کی آمادگی بھی ضروری ہے ۔
