وادی کشمیر کی تعلیم یافتہ خواتین جہاں مختلف شعبہ ہائے حیات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں وہیں نجی سیکٹر میں اپنے کاروباری ادارے قائم کرکے بھی نہ صرف خود اپنے روز گار کی سبیل کر رہی ہیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی روزگار کے موقعے پیدا کر رہی ہیں۔
جنوبی کشمیر کے قصبہ ترال سے تعلق رکھنے والی دو بہنوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری نوکری کے انتظار میں بیٹھنے کی بجائے اپنی قصبہ میں ایک بوٹیک قائم کرکے نہ صرف اپنے لئے خود موثر ومسمتقل روزگار پیدا کیا بلکہ دوسری لڑکیوں کو بھی روزگار حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔اس بوٹیک کے دو سیکشن ہیں ایک بوٹیک جس کو ایک بہن چلاتی ہے اور دوسرا ڈرس ڈیزائنگ ہے جس کو دوسری بہن جس نے ڈرس دیزائنگ میں ڈپلواما کیا ہے ، چلا رہی ہے ۔یہ
یونٹس اب ان دو بہنوں کے روزگار کے وسائل ہی نہیں بلکہ علاقے میں ان کی پہچان بن گئے ہیں اور دوسری پڑھی لکھی لڑکیوں کے لئے اپنے بل پر روزگار حاصل کرنے کا محرک بھی بن گئے ہیں۔ان دو بہنوں میں سے عفو ریشی نامی بہن جس نے منیجمنٹ میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی ہے ، نے یو این آئی کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ہم نے سال2016 میں یہ بوٹیک قائم کئے ۔انہوں نے کہا: ‘ہمارے اس بوٹیک کے دو سیکشن ہیں ایک ڈرس ڈیزائننگ ہے دوسرا بوٹیک ہے ’۔ان کا کہنا تھا: ‘پڑھائی مکمل کرنے کے بعد میں سرکاری نوکری ہی کرنا چاہتی تھی اور مجھے پورا یقین تھا کہ میں بھرتی بھی ہوجاؤں گی لیکن ایک دو دفعہ کوشش کرنے کے بعد میں سلیکٹ نہیں ہوئی’۔انہوں نے کہا: ‘میں نے پھر دیکھا کہ یہاں انتہائی کم اسامیوں کے لئے ہزاروں کیا لاکھوں کی تعداد میں امیدواروں نے فارم جمع کرکے امتحان دیا ہوتا ہے لہذا میں نے مزید وقت ضائع کئے بغیر اپنا کام شرو ع کرنے پر غور کیا’۔موصوفہ نے کہا کہ پہلے پہل مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہم نے ہمت سے کام لیا اور بوٹیک قائم کیا جو آج ہماری پہچان بن گیا۔
انہوں نے کہا: ‘پہلے پہل ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کچھ لوگ حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی ہی کرتے تھے لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری، گھر والوں نے بھی مدد کی اور آج یہ یونٹ ہماری پہچان بن گیا’۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے یونٹ میں آج پندرہ لڑکیاں کام کر رہی ہیں جو سب کی سب پڑھی لکھی ہیں۔
عفو ریشی کا ماننا ہے کہ کشمیر میں ہنر مند افراد خواہ وہ مرد ہیں یا زن، کی کوئی کمی نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ہنر کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے کام کرنا چاہئے باقی چیزیں پھر خود بخود ہی آجاتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جب ہم کوئی اچھا کام کرتے ہیں تو نہ صرف گھر والے بلکہ معاشرہ بھی اس کی پذیرائی کرتا ہے ۔موصوفہ نے کہا کہ ہم ترال کے بعد اب ہم پانپور میں اپنا یونٹ قائم کرنے پر غور کر رہے ہیں اور اس کے لئے ہم جگہ ڈھونڈ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں سری نگر میں بھی یونٹ قائم کرنے کے لئے آفر کیا جاتا ہے لیکن ابھی ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ تین جگہوں پر یونیٹس کو سنبھال سکیں۔
عفو ریشی نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اب تک ہماری کوئی مدد نہیں ہوئی اگر ہوتی تو شاید ہم مزید آگے بڑھ گئے ہوتے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کورونا کے دوران وردیاں، ماسک وغیرہ مفت تقسیم کیں عوامی سطح پر اس کی کافی پذیرائی ہوئی لیکن حکومت نے کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرے جو دوسروں کو روزگار حاصل کرنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔
موصوفہ نے کہا کہ اپنے یونٹ قائم کرنے والے نوجوانوں کو مختلف اسکیموں کے تحت بینک قرضے دئے جاتے ہیں لیکن یہ قرضے حاصل کرنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے لہذا ا طوالت کو کم کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے کاروباری یونٹ قائم کرنے کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ جانکاری کیمپوں کا انعقاد کرے ۔انہوں نے تعلیم یافتی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے نام اپنے پیغام میں کہا: ‘گھر میں بے کار بیٹھنے کی بجائے اپنے ہنر پر کام کرکے اپنا روزگار خود حاصل کریں’۔یو این آئی