پچھلے دنوں جموں کشمیر پولیس میں 1200 خالی اسامیوں پر تقرریاں عمل میں لائی گئیں ۔ سب انسپکٹر کے طور کی گئی بھرتیوں کی فہرست سامنے آئی تو کئی حلقوں نے اس میں مبینہ بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ۔ بے ضابطگی کے معاملے کو لے کر سخت شور شرابا کیا گیا ۔ سوشل میڈیا کے علاوہ پریس میں بھی اس پر سخت مایوسی کا اظہار کیا گیا ۔ اب انتظامیہ نے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ یقین دلایا گیا کہ الزامات صحیح ثابت ہوئے تو جاری کی گئی فہرست کو منسوخ کرکے بھرتی کا عمل پھر سے شروع کیا جائے گا ۔ اس اعلان سے نوجوان طبقے کو حوصلہ ملا ہے اور حقدار امیدوار وں کو توقع ہے کہ ان کے ساتھ ہوئی ناانصافیوں کا ازالہ کیا جائے گا ۔ کہا جاتا ہے کہ لیفٹنٹ گورنر نے ذاتی دلچسپی لے کر متعلقہ حکام کو تنبہ کی ہے اور مبینہ بے ضابطگیوں کا جلد از جلد جائزہ لینے کے احکامات دئے ہیں ۔ یہ عمل کب تک مکمل ہوگا اس حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے ۔
سرکاری نوکریاں فراہم کرنے کے حوالے سے بے ضابطگیوں کے الزامات پہلی بار سامنے نہیں آئے ہیں ۔ اس سے پہلے جموں کشمیر بینک میں خالی اسامیوں پر تقرریاں عمل میں لائی گئیں ۔ اس وقت بھی بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کے الزامات لگائے گئے ۔ کچھ عرصہ پہلے فائر اینڈ ایمرجنسی محکمے کے لئے تقرریوں کی فہرست منظر عام پر لائی گئی ۔ جتنی بھی تقرریاں کی گئی تھیں تنقید کا نشانہ بنائی گئیں ۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے اسی طرح کی ایک فہرست کو منسوخ کرکے سرنو تقرریاں عمل میں لانے کے لئے کہا گیا تھا ۔ نئی فہرست سامنے آئی تو پہلے سے بھی زیادہ فراڈ کے الزامات لگائے گئے ۔ کوئی تحقیقاتی ایجنسی سامنے نہیں آئی اور نہ انتظامیہ نے الزامات کی طرف کوئی توجہ دی ۔ اس کے بعد یہی خیال کیا گیا کہ ایسی بے ضابطگیاں یہاں پچھلے ستھر سالوں کا معمول ہے ۔ روایت جاری ہے اور اس پر روک لگانا کسی کے بس کی بات نہیں ۔ تازہ ترین واردات یہ سامنے آئی کہ پولیس میں آفیسر سطح کی بھرتیوں میں بے ضابطگیوں کے الزامات لگائے جارہے ہیں ۔ ایسی تقرریاں ایک حساس معاملہ ہے جس کی کسی بھی صورت اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ لیکن سینہ زوری اس قدر بڑھ گئی ہے کہ پولیس جیسے اہم اور حساس محکمے میں بے گوٹالے ہورہے ہیں ۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے محکمے کے اندر چور دروازے سے لائے گئے آفیسر آگے جاکر سوسائٹی کے ساتھ کون سا رویہ اختیار کرسکتے ہیں ۔ قانون نافذ کرنے والے پولیس جیسے اہم ادارے کے اندر تقرریوں میں اس قدر بے ضابطگیاں بڑھ گئی ہیں کہ گورنر ہائوس تک اس کی گونج سنائی دینے لگی ہے ۔ ایک عام شہری کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس کے مفادات کی حفاظت دن بہ دن مشکل ہورہی ہے ۔ گورنر راج میں عوام توقع کرتے ہیں کہ سیاسی کارکنوں کی مداخلت سے ماورا نتظامی امور انجام پائیں گے ۔ غریب شہریوں کو رشوت اور اقربا پروری سے نجات مل جائے گی ۔ لیکن تازہ اقدامات سے اندازہ ہورہاہے کہ حکمران طبقہ ایسے معاملات میں یکسان سوچ کا حامل ہے ۔ سیاسی حکومت ہو یا کوئی اور نظام ہر ایسے موقعے پر فراڈ اور گوٹالوں کی روایت جاری رہتی ہے ۔ پانچ دس سال پہلے اس طرح کے اسکنڈل سامنے آتے تو اندازہ لگایا جاتا تھا کہ کانگریس کی مرکزی سرکار اپنے پسندیدہ کارکنوں کے لئے اس کی کھلی چھوٹ دے رہی ہے ۔ موجودہ حکومت کے بارے میں امید کی جارہی تھی کہ بڑے بڑے اسکنڈلوں سے نجات مل جائے گی ۔ موجودہ سرکار نے کئی بڑے بڑے سیاست دانوں کے علاوہ بہت سے نامی کاروباری افراد کو فراڈ کیسوں میں ملوث پاکر دھر لیا ۔ اس کے بعد امید تھی کہ خوف کا ایسا ماحول قائم ہوگا جہاں کوئی سرکاری اہلکار معمولی خرد برد سے پہلے دس بار سوچ میں پڑ جائے گا اور کسی طور غلط قدم اٹھانے کی جرات نہیں کرے گا ۔ لیکن اب آہستہ آہستہ یہ سب خواب ملیا میٹ ہورہے ہیں اور سب ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے معلوم ہورہے ہیں ۔ پولیس کی بھرتیوں کے عمل میں اقربا پروری اور رشوت ستانی کے الزامات لگائے جائیں تو چپراسیوں کی تقرریوں میں دیانت داری کا خیال کہاں رکھا جائے گا ۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ اس طرح کے نظام نے پورے سماج کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ۔ اس طرح کی حرکات پر روگ لگانا مشکل نہیں ہے ۔ ایک بار ملوث مجرموں کو پکڑ کر ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے تو دوسروں کے لئے عبرت کا نشان بن سکتا ہے ۔ لیکن ایسے افراد ہر دور اور ہر حکومت کے لئے بڑے پسندیدہ افراد ہوتے ہیں ۔ یہ ہر زمانے میں اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔
