پچھلے کئی ہفتوں سے جموں کشمیر میں شدید گرمی پائی جاتی ہے ۔ اس دوران دن کے درجہ حرارت میں کافی اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے ۔ بارشیں ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں ۔ بلکہ آئے روز ژالہ باری ہورہی ہے ۔ پچھلے کچھ دنوں کے دوران کئی جگہوں سے بجلی گرنے کی اطلاع ہے ۔ بجلی گرنے سے ایک عورت مبینہ طور موت کا شکار ہوئی ہے ۔ ادھر بعض علاقوں سے معلوم ہوا ہے کہ تیز ہوا چلنے اور گرج چمک سے کئی رہائشی مکانوں کو نقصان پہنچا ہے ۔ میوے دار درختوں کے جڑ سے اکھڑ جانے کی بھی اطلاع ہے ۔ سب سے زیادہ پریشانی دھان کی فصل کے حوالے سے پائی جاتی ہے ۔ کسانوں کو پانی کی شدید قلت کا سامناہے ۔ دھان کی پنیری لگانے کے لئے چند دن ہی باقی بچے ہیں ۔ ماہرین کے مطابق یہ کام 21 جون سے پہلے انجام پانا چاہئے ۔ جن کسانوں نے یہ کام اب تک انجام دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ کھیت سوکھ گئے ہیں اور پنیری کو بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے ۔ باقی ماندہ کسان یہ کام انجام دینے سے قاصر ہیں ۔ایسی صورتحال نہ صرف کسانوں کے لئے بلکہ تمام لوگوں کے لئے مایوس کن ثابت ہورہی ہے ۔
جموں کشمیر میں دھان کی فصل اگانے کا رجحان پہلے ہی کم ہورہاہے ۔ اس فصل کے اگانے پر جتنا خرچہ آتا ہے کسانوں کا کہنا ہے کہ پیداوار اس قدر نہیں ہوتی ہے ۔ ادھر کھاد اور دوسری کیمیاوی چیزوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہورہاہے ۔ مزدوروں کی اجرت بھی بڑھ گئی ہے ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ بہت کم لوگ دھان کی فصل لگانا پسند کرتے ہیں ۔ سرکار نے ایک طرف کسانوں کو ان کی ضروریات کی چیزوں پر سبسڈی دینا بہت پہلے ختم کیا ۔ اس کے علاوہ چاول وافر مقدار کے علاوہ بہت ہی کم قیمت پر دستیاب ہیں ۔ اس وجہ سے ضرورت مند لوگ مقامی کسانوں سے چاول خریدنے کے بجائے سرکاری ڈیپو سے رسد حاصل کرنا پسند کرتے ہیں ۔ پچھلے سال کی فصل ابھی تک کسانوں کے پاس پڑی ہے ۔ انہیں خریدار نہیں ملتے ہیں ۔ یہ صرف جموں کشمیر کی صورتحال نہیں ۔ بلکہ پورے ملک میں اسی طرح کی سوچ بڑھ رہی ہے ۔ کسانوں کو اندازہ ہورہاہے کہ ایسی فصلیں اگانے سے انہیں کوئی خاص نفع نہیں ہورہاہے ۔ بیشتر کسان چاول کے بجائے دوسری فصلیں لگانے کو فوقیت دے رہے ہیں ۔ اس دوران یہ الزام لگایا جارہاہے کہ ادارے کسانوں کو تعاون دینے کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں ۔ دوسری طرف قدرتی نظام بھی بگڑ رہاہے ۔ پولیوشن کی وجہ سے موسمی حالات میں غیر متوقع تبدیلیاں آرہی ہیں ۔ خشک سالی دن بہ دن بڑھ رہی ہے ۔ اس کا براہ راست اثر کسانوں پر پڑرہاہے ۔ فصلیں متاثر ہورہی ہیں اور بازاروں میں ان کی مانگ کم ہورہی ہے ۔ ایسی صورتحال کے اندر کسانوں کی مدد کرنے کو کوئی تیار نہیں ۔ بلکہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ اگلی دہائی کسانوں کے لئے مشکلات میں اضافے کا باعث ہوگی ۔ یہی صورتحال رہی تو قحط پیدا ہونے کا خدشہ ہے ۔ ایسے خدشات بہت پہلے سے سامنے آرہے ہیں ۔ اس سال مارچ کے شروع میں ہی محکمہ ایگریکلچر نے کسانوں کو مشور دیا تھا کہ دھان کی فصل کے بجائے ایسی فصلیں لگائیں جن کے لئے پانی کی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی ۔ لیکن کسانوں نے پھر بھی دھان کی فصل لگانے کی کوشش کی ۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ دوسرے فصلوں کے لئے زیادہ محنت اور اضافی مزدور لگانے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ایسا کرنا ان کے بس سے باہر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسان دھان کی فصل لگانا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ لیکن موسم اس کے موافق نہیں ہے ۔ کھیتوں کی جو صورتحال ہے وہ انتہائی مایوس کن ہے ۔ قدرت کو موسم بدلنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے قدرتی توازن کو بگاڑ کر آلودگی میں بے تحاشہ اضافہ کیا ۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ پانی کے ذخائر آہستہ آہستہ خشک ہورہے ہیں ۔ گلیشر پگھل کر کافی سمٹ چکے ہیں ۔ گلیشروں کے حوالے سے کام کرنے والے لوگوں نے کئی سال پہلے وارننگ جاری کی کہ کشمیر میں موسم بگڑجانے کا خدشہ ہے اور گلیشروں کے سمٹنے سے پانی کی شدید قلت پیدا ہوگی ۔ اس دوران نہ صرف کھیتوں کے لئے پانی میسر نہیں رہاہے ۔ بلکہ پینے کے پانی کی بھی کمی محسوس ہورہی ہے ۔ نہ صرف شہری آبادی کے لئے پینے کا پانی میسر رکھنا مشکل ہورہاہے ۔ بلکہ گائو دیہات کے لوگ بھی ایسی ہی پریشانیوں سے دوچار ہیں ۔ یہ کتنی افسوس کی بات ہے کہ بہت سے دیہاتوں کو گاڑیوں اور کنٹینروں میں پانی بھر کر مہیا کرنا پڑتا ہے ۔ ایسے دیہات جہاں کچھ سال پہلے پانی کے قدرتی ذخائر پائے جاتے تھے اب ایسی سہولیات کو ترس رہے ہیں ۔ خشک سالی کا یہی انجام ہوتا ہے ۔ اس صورتحال پر قابو پانا ضروری ہے ۔
