انتظامیہ نے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے مبینہ طور ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنے والے 112 ڈاکٹروں کو ان کی نوکری سے برطرف کیا ۔ محکمہ صحت کے سربراہ کا کہنا ہے کہ برطرف کئے گئے ڈاکٹروں کو قبل از وقت خبردار کرکے ڈیوٹی پر واپس آنے کے لئے کہا گیا تھا ۔ لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی ۔ نوٹس کا جواب دیا نہ نوکری پر واپس آگئے ۔ اس کے بعد سرکار نے انہیں برطرف کرنے کا فیصلہ لیا ۔ یہ جرات مندانہ قدم ہے جو صحت سہولیات کو بہتر بنانے کے لئے اٹھایا گیا ہے ۔ ان ڈاکٹروں کے کوائف اگرچہ سامنے نہیں آئے ہیں ۔ تاہم یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایسے بیشتر ڈاکٹر اپنا گھربار چھوڑ کر کہیں اور نوکری کررہے ہیں ۔ جہاں انہیں زیادہ تنخواہ ملتی ہے اور دوسری سہولیات بھی ممکن ہے کہ توقع سے بہتر ہوں ۔ وہاں انہوں نے کنٹریکٹ پر دستخط کئے ہیں اور ان کے لئے معاہدہ کی خلاف ورزی ممکن نہیں ۔ اس لئے ڈیوٹی پر واپس آنے سے گریز کیا ۔ حکومت نے جو قدم اٹھایا ہے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ایک طرف خزانہ عامرہ پر بوجھ کم ہوجائے گا ۔ ساتھ ہی صحت عامہ کی سہولیات بہتر بنانے میں مدد ملے گی ۔
ڈاکٹروں کی برطرفی سے پہلے حکومت نے کئی درجن ایسے استاد اور استانیاں برطرف کیں جو کئی دہائیوں سے کشمیر میں موجود نہیں ہیں ۔ وہ اپنی شادی یا کسی دوسری وجہ سے ترک سکونت کرکے دوسرے مقامات پر بسنے کے لئے گئے ہیں ۔ وہاں انہوں نے باضابطہ شہریت اختیار کی ہوئی ہے ۔ اس کے باوجود کشمیر میں ان کی نوکریاں محفوظ تھیں ۔ بلکہ کئی ایک کو مبینہ طور تنخواہ بھی گھر پہنچادی جاتی تھی ۔ حکومت نے ایسے کئی ملازموں کو ان کی نوکریوں سے برطرف کیا ۔ اب اکٹھے ایک سو بارہ ڈاکٹروں کو ان کی نوکریوں سے رخصت کیا گیا ۔ یہ بڑے بدقسمتی ہے کہ انہیں ڈاکٹر بنانے پر قومی سرمایہ کا ایک خاطر خواہ حصہ خرچ کیا گیا ۔ بغیر کسی ذاتی لاگت کے انہیں سرکاری میڈیکل کالجوں میں ٹریننگ دے کر ایک باوقار پوسٹ پر تعینات کیا گیا ۔ لیکن انہوں نے اس کی کوئی قدر نہیں کی اور مزید کمائی کے لالچ میں یہاں سے نکل کر دوسری جگہوں پر نوکری کرنے لگے ۔ انہیں یہ بات یاد نہیں رہی کہ ان کے گھروالوں ، ہمسایوں اور دوسرے کئی سو شہریوں نے ان کے ڈاکٹر بننے پر بڑی خوشی کا اظہار کیا تھا ۔ قوم کے غریب طبقے کو امید تھی کہ یہ ڈاکٹر آگے جاکر ان کے کام آئیں گے ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ مجموعی صورتحال یہ ہے کہ محکمہ صحت کے اندر غریب اور پسماندہ طبقوں کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ہے ۔ یہ محکمہ مکمل طور مفلوج نظر آتا ہے ۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ آج بھی سرکاری ہسپتالوں میں ہزاروں کی تعداد میں مریض علاج معالجہ کے لئے آتے ہیں ۔ لیکن ان میں سے بیشتر وہ مریض ہیں جنہیں پرائیویٹ ہسپتالوں تک رسائی حاصل نہیں ہے ۔ ایسے مریضوں کو معمولی ٹیسٹ کرانے کے لئے کئی کئی چکر لگانے پڑتے ہیں ۔ چوتھے درجے کے ملازموں کی منت سماجت کرنا پڑتی ہے ۔ لائنوں میں کئی کئی گھنٹے کھڑا رہنا پڑتا ہے ۔ سینئر ڈاکٹروں سے ان کو کوئی مشورہ نہیں ملتا ہے ۔ یہاں تک کہ تھک ہارکر ایسے مریض وقت سے پہلے موت کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ یہاں ہسپتالوں میں کئی بار تیمار داروں نے توڑ پھوڑ کی اور الزام لگایا کہ ان کے مریض ڈاکٹروں کی لاپرواہی کی وجہ سے موت کا شکار بن گئے ۔ ضروری نہیں کہ ہر مرنے والا مریض ڈاکٹروں کی عدم توجہی کی وجہ سے مرگیا ہو۔ لیکن ایسے سارے الزامات مسترد بھی نہیں کئے جاسکتے ہیں ۔ یہ دیکھنا اور اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مریضوں کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ڈاکٹر اور دوسرا طبی عملہ موج مستیوں میں مگن ہوتا ہے ۔ اس دوران سرکار ایک سو بارہ ڈاکٹروں کو بیک جنبش قلم ان کی نوکریوں سے برطرف کیا ۔ اتنا ہی کافی نہیں ۔ بلکہ صحت عامہ کے اداروں کو راہ راست پر لانے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اکثر مریض اپنی جائیداد فروخت کرکے دوسری ریاستوں کے پرائیویٹ ہسپتالوں میں جاکر علاج کراتے ہیں ۔ یہ مریض واپس آکر وہاں کے عملے کی تعریف کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود ہمارے ڈاکٹر اور دوسرے ملازمین ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔ سرکاری ہسپتالوں کا نطام بہت پہلے سے افرا تفری کا شکار ہے ۔ بڑے بڑے ہسپتالوں میں رشوت اور سفارشوں کا مضبوط سسٹم پایا جاتا ہے ۔ کئی ہسپتالوں میں سینئر ڈاکٹر او پی ڈی میں آنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ آپریشن تھیٹروں میں ان کا آنا ان کے منصب سے زیادتی سمجھی جاتی ہے ۔ خود کو مسیحا کہلانے والے یہ نام نہاد ڈاکٹر پورے طبی نظام کے لئے کلنک کا ایک داغ بنے ہوئے ہیں ۔ ڈاکٹروں کی برطرفی کافی نہیں ۔ بلکہ نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ امید ہے کہ اس طرف توجہ دی جائے گی ۔تاکہ غریبوں کا بھلا ہو۔
