کئی ضلعوں میں انتظامیہ نے پھر سے چہرے پر ماسک لگانے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ سرینگر کے ڈپٹی کمشنر نے ہدایت دی ہے کہ عوامی مقامات پر ماسک کے بغیر کوئی نظر نہیں آنا چاہئے ۔یہ احکامات اس وقت سامنے آئے جب طبی جانچ کے دوران معلوم ہوا کہ کووڈ مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ سنیچر کو یہ تعداد ایک سو کے لگ بھگ تھی ۔ اتوار کو معلوم ہوا کہ اس میں دوگنا اضافہ ہوا ہے ۔ سوموار کو سامنے آئے اعداد وشمار کے مطابق ایسے مریضوں کی تعداد مبینہ طور تین سو کی حد پار کر چکی ہے ۔ ایسی اطلاعات سامنے آنے کے بعد عوامی حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ پچھلے دو تین مہینوں کے دوران اندازہ لگایا جارہا تھا کہ وبا کی صورتحال ختم ہوگئی اور خطرہ ٹل چکا ہے ۔ لیکن کئی دنوں سے اندازہ ہورہاہے کہ صورتحال ہمارے اندازوں کے برعکس ہے ۔ اگرچہ پریشان ہونے کی بات نہیں ہے ۔ بلکہ احتیاط سے صورتحال پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے کہ کرونا وائرس کے اثر میں آنے سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے ۔ اس حوالے سے طبی ماہرین اس مشورے پر زور دے رہے ہیں کہ جم غفیر میں جانے سے احتراض کیا جائے اور احتیاط کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے ۔
کورونا وائرس نے دو سال پہلے اچانک نمودار ہوکر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ خاص طور سے ترقی یافتہ ممالک کے اندر اس وجہ سے پھیلے مرض نے بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ اس وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے ۔ احتیاطی تدابیر اور بندشوں کی وجہ سے زندگی کا سارا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس وائرس سے سخت خوف زدہ ہیں ۔ بڑی مشکل سے دنیا وبائی صورتحال سے نکل آئی ہے ۔ زندگی کے معمولات پھر سے بحال ہورہے ہیں ۔ تجارتی سرگرمیاں زور پکڑ رہی ہیں ۔ اندازہ تھا کہ ان دو سالوں کے دوران اٹھائے گئے نقصان کی بھرپائی کی جاسکے گی ۔ اب کئی روز سے ایسا لگ رہا ہے کہ حالات پھر پلٹا کھارہے ہیں ۔ مریضوں کی تعداد میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو ظاہر سی بات ہے کہ کاروباری سرگرمیاں دوبارہ کم ہوجائیں گی ۔ اگرچہ اس بات کے بہت کم امکانات ہیں کہ عالمی سطح پر کرفیو نافذ کیا جائے گا ۔ تاہم بہتر حالات کو بحال رکھنا مشکل ہوگا ۔ پورے ملک میں کرونا کیسز کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے ۔ کشمیر میں بھی ایسے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ انتظامیہ کے لئے ایسی صورتحال پر قابو پانا آسان نہیں ہے ۔ ایک بار پھر کرونا پروٹو کول پر عمل کرنے کے لئے کہا جارہاہے ۔ اسکولوں ، چوراہوں ، شادی بیاہ کی تقریبات اور ایسے ہی دوسری جگہوں پر احتیاط سے کام لینا مشکل ہے ۔ سامنے آنے والی اطلاعات سے ایک بار پھر مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔کرونا مخالف ٹیکے لگانے کے بعد لوگ سمجھ رہے تھے کہ اب اس وائرس کا سامنے آنا ممکن نہیں ہے ۔ اس طرح کا ویکسین تیار کرنے پر خوشی کا اظہار کیا جارہاتھا ۔ ویکسین کی تیاری کو ملک کی طبی تاریخ میں ایک بڑا قدم قرار دیا جارہا تھا ۔ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ہندوستان میں ویکسین مختصر وقت میں تیار کیا گیا ۔ پھر حکومت نے یہ ویکسین لوگوں کو مفت دینے کا اعلان کیا ۔ بلکہ رضاکاروں کو کام پر لگاکر عام لوگوں کو ٹیکہ لینے پر آمادہ کیا گیا ۔ شہر و دیہات ایسے مراکز قائم کئے گئے جہاں یہ ٹیکے مفت لگائے گئے ۔ اس کے بعد بوسٹر ڈوز دینے کا اعلان کیا گیا ۔ ایسے اقدامات کے باوجود کرونا وائرس نے دوبارہ دستک دے کر لوگوں کو حیران کیا ۔ طبی حلقوں میں اس وجہ سے سخت ہلچل پائی جاتی ہے ۔ عوام اس وجہ سے حیران و پریشان ہیں ۔ صورتحال جو بھی ہے تکلیف دہ بتائی جاتی ہے ۔ اس صورتحال سے بچنے کے لئے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ کرونا کے مثبت کیسز بڑھنے کے ساتھ شفایاب ہونے والے مریضوں کی تعداد بھی تسلی بخش ہے ۔ حالیہ دنوں میں اس وجہ سے صرف ایک مریض کے مر جانے کی خبر ہے ۔ جموں سے ایک شخص کی موت واقع ہوئی ہے ۔ البتہ مثبت کیسز سامنے آنے سے کچھ تشویش ضرور پائی جاتی ہے ۔ حکومت کی طرف سے وائرس قابو کرنے کی کوششیں جاری ہیں ۔ احتیاطی تدابیر کو عملانے پر زور دیاجارہا ہے ۔ لوگ خود بھی بہت کچھ سیکھ چکے ہیں ۔ بد احتیاطی کسی طور موذون نہیں ہے ۔ لوگوں کو ہوش سے کام لے کر طبی مشوروں پر عمل کرنا ہوگا ۔ جب ہی کرونا وائرس کو قابو کرنا آسان ہوگا ۔ بصورت دیگر مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
