سوموار کو سرینگر میں کئی درجن ڈیلی ویجروں نے احتجاجی جلوس نکالنے کی کوشش کی ۔ یہ ڈیلی ویجر سرکار سے مطالبہ کررہے کہ انہیں مستقل کیا جائے ۔ اس احتجاج کو روکنے کے لئے پولیس نے کاروائی کی اور انہیں آگے بڑھنے نہیں دیا ۔ ڈیلی ویجروں کا کہنا ہے کہ وہ انصاف مانگنے کے لئے پر امن جلوس نکال رہے تھے ۔ لیکن پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے جلوس کو روک دیا ۔ اس کے بعد احتجاج کرنے والے ڈیلی ویجر منتشر ہوگئے اور کئی ایک کو مبینہ طور تحویل میں لیا گیا ۔ حکومت نے حال ہی میں ایک بیان دیا تھا کہ بہت جلد تیس ہزار کے قریب ڈیلی ویجروں کو مستقل کیا جائے گا ۔ اس سے کئی حلقوں میں اضطراب بڑھ گیا ۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ حکومت نے مستقلی کے لئے کیا طریقہ کار بنایا اور کن عارضی ملازموں کو مستقل کیا جارہاہے ۔ اس حوالے سے بنائے گئے ا صول وضوابط کے بارے میں تاحال کوئی جانکاری نہیں ہے ۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ڈیلی ویجروں کو مستقل کیا جارہاہے ۔ لیکن یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ جموں کشمیر میں پچھلے کئی دہائیوں سے عارضی ملازم کئی دفتروں میں کام کررہے ہیں ۔ بدقسمتی سے ان عارضی ملازموں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ۔ ماضی میں کئی موقعوں پر اس مسئلے پر بیانات دئے گئے ۔ بلکہ ایسے عارضی ملازموں کو بہت جلد مستقل کرنے کا ان سے وعدہ بھی کیا گیا ۔ لیکن یہ وعدے کبھی وفا نہیں ہوئے اور مسئلہ آج تک لٹکا ہوا ہے ۔ ماضی میں سیاسی حکمرانوں نے بڑی فراخدلی سے ان ملازموں کی بھرتی عمل میں لائی ۔ اپنا ووٹ بینک محفوظ بنانے کے لئے ان ڈیلی ویجروں کو دھڑا دھڑ بھرتی کیا گیا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایسا غیر قانونی ہے اور اتنی تعداد میں عارضی ملازموں کو بھرتی کرنا کسی بھی قانون کے روسے صحیح نہیں ۔ اس کے باوجود کسی سرکار نے ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ بلکہ ان کے روزگار اور ان کے اہل و عیال کی ضرورتوں کو دیکھ کر انہیں ملازمتوں پر بحال رکھا گیا ۔ بلکہ جو کوئی بھی آیا اپنے ووٹروں کو بھرتی کرکے چلا گیا ۔ ایسا صرف سیاست دانوں نے ہی نہیں بلکہ بیروکریٹوں اور اسی طرح کا اثر ورسوخ رکھنے والے تمام بندوں نے کیا ۔ بڑے بڑے اداروں میں اس طرح کا عمل اختیار کیا گیا ۔ یونیورسٹیوں ، بینکوں اور کئی سرکاری محکموں میں اس طرح کی بھرتیاں عمل میں لائی گئیں ۔ یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ عملی طور یہی ڈیلی ویجر سرکاری کام کاج انجام دینے میں پیش پیش رہتے تھے ۔ آج بھی بیشتر دفاتر ان ہی کی وجہ سے چلتے ہیں ۔ مستقل ملازم ڈیلی ویجروں کی موجودگی میں خود کو کسی بھی کام سے مبریٰ سمجھتے ہیں ۔ بلکہ اپنی شان کے خلاف قرار دیتے ہیں ۔ اس زمانے میں جبکہ جموں کشمیر میں حالات سرکاری دسترس سے باہر تھے اور ملازم دفتروں میں آنے کے بجائے گھروں میں بیٹھنا پسند کرتے تھے ۔ انہی ڈیلی ویجروں نے دفتروں میں کام کاج بحال رکھا ۔ اس دوران ان ڈیلی ویجروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا جاتا رہا۔ جہاں بھی سرکار کو جلسہ جلوس کرنے کی ضرورت پڑتی تھی ڈیلی ویجروں کو جمع کرکے ایسے جلسے کامیاب بنائے جاتے تھے ۔ ایسے ہر موقعے پر انہیں مستقل بنانے کی یقین دہانی کی گئی ۔ یہ سب کچھ زبانی ہوتا رہا ۔ عملی طور انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا گیا ۔ یہ مسئلہ اس قدر الجھا ہوا ہے کہ کوئی اسے سلجھانا چاہئے ایسا نہیں کرسکتا ہے ۔ تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ یہ سرکار کا حصہ ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ان کے مسائل انسانی ہمدردی کے تحت حل کئے جائیں گے ۔ اگرچہ اس طرح کے کوئی آثار نہیں دکھائی دیتے ۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کیا جائے گا ۔ ہمارے سامنے ایسی بھی مثالیں ہیں کہ بیس پچیس روپیوں کی تنخواہ کے عوض عارضی ملازم کام کرتے رہے ۔ بلکہ سرکاری عمارتوں کی حفاظت میں ان کا اہم رول رہاہے ۔ ایسا بیشتر عارضی اہلکار کئی سالوں سے صفر تنخواہ پر کام کررہے ہیں ۔ انہیں چاہئے کی ایک پیالی کے عوض کام کرایا جاتا ہے ۔ یہ اس امید کے سہارے جی رہے ہیں کہ کسی نی کسی مرحلے پر انہیں مستقل بناکر خوش کیا جائے گا ۔ یہ سب افراد اہل وعیال والے ہیں اور بڑی تنگ دستی کی حالت میں اپنا عیال پال رہے ہیں ۔ ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے ۔ اس کے باوجود کام کرنے پر مجبور ہیں ۔ ایسی صورتحال کے اندر سرکار کو چاہئے کہ ان کے حوالے سے کوئی ٹھوس پالیسی بناکر انہیں آباد کیا جائے ۔ ایسا نہ کیا گیا تو ہزاروں خاندان مایوسی کا شکار ہوجائیں گے ۔ یہاں انتخابات کا بگل بہت جلد بجنے والا ہے ۔ ہر سیاسی جماعت اپنے الیکشن مینی فیسٹو میں ان کا مسئلہ ضرور رکھے گی ۔ بعد میں کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا ۔ اگر آج ان کا مسئلہ حل نہ کیا گیا تو مستقبل میں ایسا ہونا کسی طور ممکن نہیں ۔
