عام لوگوں کے لئے سفر کرنا دن بہ دن مشکل ہورہاہے ۔ نجی ٹرانسپورٹ میں اضافے کی وجہ سے عوامی ٹرانسپورٹ کی سہولیات آہستہ آہستہ کم ہورہی ہیں ۔ سرکار نے لوگوں کی مشکلات کم کرنے کے لئے ٹرانسپورٹ بسوں کا انتظام کیا ۔ لیکن ایسی بسوں میں سفر کرنا آسان نہیں ہے ۔ یہ بسیں بہت کم روٹوں پر چلتی ہیں ۔ اس کے علاوہ ہروقت دستیاب نہیں ہیں ۔ ان کے لئے وقت مقرر ہے اور مقررہ وقت سے پہلے یا اس کے بعد میسر نہیں ہوتی ہیں ۔ خاص کر اندرون شہر ان کا چلنا دشوار بتایا جاتا ہے ۔ ادھر بیشتر لوگوں نے سفر کو آسان بنانے کے لئے ذاتی گاڑیاں خریدی ہیں ۔ ملک بھر میں سب سے زیادہ ذاتی گاڑیاں جموں کشمیر میں لوگوں کے پاس موجود ہیں ۔ لوگ اپنی ذاتی گاڑیوں میں سفر کرنا پسند کرتے ہیں ۔ جن لوگوں کے پاس ذاتی گاڑیاں میسر ہیں عوامی ٹرانسپورٹ استعمال کرنے سے پرہیز کرتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ مسافر گاڑیاں چلانے والوں کو مناسب سواریاں نہیں ملتی ہیں ۔ سواریاں نہ ملنے کی وجہ سے کمائی میں بھی کمی آگئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت اب بہت کم میسر ہے ۔ لوگ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ شام ڈھلنے سے پہلے سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہوجاتا ہے ۔
دوردراز کے دیہاتوں کے علاوہ سرینگر کے بہت سے علاقوں تک پہنچنے کے لئے عوامی ٹرانسپورٹ میسر نہیں ہے ۔ لالچوک سے اندرون شہر جانے کے لئے بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ صبح شام کی بات تو اپنی جگہ دن کو لالچوک سے کشمیر یونیورسٹی جانا ہوتو عوامی ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر آنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح لال بازار ، درگاہ ، کھریو اور شالیمار کے لوگ بہت پہلے سے شکایت کررہے ہیں کہ انہیں شام کو لالچوک یا ڈل گیٹ سے گھر پہنچنے کے لئے ٹرانسپورٹ نہیں ملتا ہے ۔ سرینگر کے مضافات میں پائے جانے والے علاقوں تک لوگوں کو سفر کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں ۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گاندربل ، کنگن ، اوڈی اور کولگام تک کے علاقوں کو پہنچنے میں کس قدر مشکلات کا سامنا رہتا ہوگا ۔ اصل میں یہاں عوامی ٹرانسپورٹ کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں پائی جاتی ہے ۔ مسافروں کے کوئی حقوق نہیں ۔ بلک عام لوگوں کو سہولیات پنچانے کے حوالے سے کسی قسم کے اصول اور ضوابط کا کوئی پاس ولحاظ نہیں کیا جاتا ہے ۔ سرینگر کے علاوہ کچھ گنے چنے علاقوں میں ٹریفک پولیس کا عملہ موجود ہے ۔ ان کی بھی شکایت ہے کہ ضرورت کے مطابق انہیں عمل میسر نہیں ۔ اس کے علاوہ یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے ک جدید طرز کی مشنری نہیں پائی جاتی ۔ تاکہ ایسے آلات کا استعمال کیا جائے جن سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پکڑا جاسکے ۔ حد سے زیادہ رفتار سے گاڑی چلانے والوں کے خلاف کاروائی کرنا بہت مشکل ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں ٹریفک حادثوں میں بھی بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ ایسے حادثوں میں بڑی تعداد میں لوگ خاص کر نوجوان مارے جاتے ہیں ۔ ایک پوری نسل حادثات کی وجہ سے موت وحیات کی کش مکش میں ہے ۔ ایسے حالات کے اندر اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ کس روٹ پر گاڑیاں لوگوں کی ضرورت کے مطابق چلائی جاتی ہیں اور کہاں سارا نظام درہم برہم کیا گیا ہے ۔ ان باتوں کا حساب لینا کسی کے بس میں نہیں ۔ من مانی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ مسافروں کو اپنی مرضی کے مطابق گاڑیوں میں ٹھونسا جاتا ہے ۔ مسافروں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ ایک دوسرے سے کے ساتھ چمٹ کر گاڑی میں کھڑا رہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سوار کیا جاسکے ۔ یہاں ایک بار پھر مسافروں کا بڑے پیمانے میں استحصال کیا جاتا ہے ۔ انہیں اپنی مرضی سے سفر کرنے نہیں دیا جاتا ۔ خواتین کو تنگ کیا جاتا ہے اور انہیں ناپسندیدہ سواری سمجھا جاتا ہے ۔ یہ صرف عام لوگوں کا معاملہ نہیں بلکہ ہسپتالوں اور داکٹروں کے پاس سے دیر سے نکلنے والے مریضوں کا مسئلہ بھی ہے کہ انہیں گھر پہنچنے کے لئے گاڑی نہیں ملتی ۔ ایسے بیشتر مریضوں کو گھر پہنچنے کے لئے گاڑی بک کرانا پڑتی ہے ۔ اس کے لئے انہیں دس بیس گنا فیس ادا کرنا پڑتی ہے ۔ اسی طرح کوچنگ سنٹروں سے نکلنے والے طلبہ و طالبات کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ عام شہریوں کو اس حوالے سے سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔ والدین کو اس وجہ سے سخت تشویش کا سامنا رہتا ہے کہ ان کے لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی وقت پر گھر نہیں پہنچ پاتی ہیں ۔ بھلا ہو فون سہولیت کا اس وجہ سے گھر والوں سے رابطہ بحال رہتا ہے ۔ بصورت دیگر سخت مشکلات کا سامنا رہتا ۔ اب وقت آگیا ہے کہ سرکار ٹریفک نظام کو درست کرنے کی طرف توجہ دے ۔ لوگ اس حوالے سے سخت مایوسی کا اظہار کررہے ہیں ۔ دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں لوگ نجی ٹرانسپورٹ کے بجائے عوامی ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا پسند کرتے ہیں ۔ یہاں بھی اس کی سخت ضرورت ہے ۔
