اس اطلاع نے سب کو حیران کردیا کہ اننت ناگ کے ایک آفیسر نے برطرفی کی جعلی فہرست تیار کرکے کئی درجن ملازموں سے رشوت طلب کی ہے ۔ ایک فرضی فہرست تیار کرکے افواہ اڑائی گئی کہ حکومت کئی سو ملازموں کو نوکریوں سے نکال رہی ہے ۔ اس فہرست سے نام نکالنے کے لئے ہزاروں روپے رشوت کے طور طلب کئے جارہے تھے ۔ اس بات کا علم ہونے کے بعد مذکورہ آفیسر کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جاری چارج شیٹ میں اس آفیسر کے خلاف کئی الزامات درج ہیں جن میں مبینہ طور ایسی فرضی فہرست تیار کرنے کا الزام بھی ہے جس کے بارے میں اساتذہ سے کہا گیا کہ حکومت انہیں ان کی نوکریوں سے برطرف کررہی ہے ۔ اس سے پوری اساتذہ برادری کے اندر خوف و ہراس پیدا ہوگیا ۔ بعد میں ان سے فہرست سے نام نکالنے کی سفارش کے عوض رشوت طلب کی گئی ۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آفیسر کیسے بہانے بناکر ملازموں سے رشوت طلب کرتے ہیں ۔
رشوت کی بیماری پورے سماج میں سرایت کرچکی ہے ۔ پہلے یہ بیماری بہت ہی محدود تھے ۔ لیکن اب جموں کشمیر میں رشوت کی مرض ہر ادارے اور دفتر تک پہنچ چکا ہے ۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ رشوت کے بغیر کوئی بھی کام کرانا اب ممکن نہیں رہاہے ۔ پہلے یہ بات عام تھی کہ رشوت میں سرکاری دفتروں کے کلرک ملوث رہتے ہیں اور آفیسروں کو اس بارے میں خبر نہیں ہوتی ہے ۔ لیکن کچھ عرصے سے معلوم ہورہاہے کہ کلرکوں سے زیادہ آفیسر یہ ناجائز کام آگے بڑھارہے ہیں ۔ پچھلے کچھ مہینوں سے رشوت کے خلاف کام کرنے والے اداروں نے اپنے کام میں سرعت لاکر کئی آفیسروں کو رشوت کے الزام میں گرفتار کیا ۔ یہ جان کر بڑی حیرانی ہوئی کہ ایسے بیشتر افراد میں زیادہ تر اعلیٰ عہدوں پر کام کررہے آفیسر ملوث ہیں ۔ ایک تحصیلدار کے علاوہ کئی جونیئر آفیسروں کو رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ۔ اس سے اندازہ ہورہاہے کہ رشوت کو ختم کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت نے پچھلے کچھ مہینوں کے دوران درجنوں ایسے ملازموں کو برطرف کیا جن کے خلاف الزام ہے کہ ملک دشمن سرگرمیوں یا ناجائز کاموں میں ملوث ہیں ۔ اگرچہ ملازموں کی برطرفی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ۔ بلکہ ان ملازموں سے نرمی سے پیش آنے اور انہیں برطرف کرنے کے بجائے ایسے ملازموں سے پوچھ گچھ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔ کئی سیاسی رہنمائوں نے اسے سیاسی انتقام گیری سے تعبیر کیا اور اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ۔ اب معلوم ہورہاہے کہ بعض آفیسر اس بہانے ملازموں کو تنگ کرکے ان سے رشوت لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس سے پہلے ملازموں کی جانچ کرنے اور ای پی ایم پورٹل کے تحت نمبر دینے کے حوالے سے استحصال کی خبریں آئی تھیں ۔ ایسی خبروں میں کہا گیا تھا کہ جموں میں کچھ آفیسروں ملازموں کو تنگ کرنے کے علاوہ اپنے ماتحت کام کرنے والی خواتین کو ہراساں کرتے ہیں ۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ دیانت داری سے کام کرنے کے بجائے آفیسر اوچھے ہتھکنڈوں کااستعمال کرتے ہیں ۔ یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو ظاہر سی بات ہے کہ رشوت ستانی میں کمی آنے کے بجائے آئے دن اضافہ ہوگا ۔ حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ رشوت کو کتم کرنے کے لئے کوششوں کو بڑھاوا دیا جارہاہے ۔ لیکن زمینی سطح پر حقایق ان دعووں کی تردید کرتے ہیں ۔ ایک طرف بے روزگاری میں اضافہ ہورہاہے دوسری طرف رشوت ستانی کے گراف اوپر ہوتا جارہا ہے۔ یہ غریب عوام کے لئے سخت پریشانی اک سبب بن رہاہے ۔ اس ھوالے سے دیکھنا یہ ہے کہ جب کسی ادارے کا آفیسر اپنے ماتحت ملازموں سے رشوت طلب کرے گا تو ملازم یقینی طور دفتر میں آنے والے سائلوں سے بڑے پیمانے میں رشوت لیں گے ۔ عملی طور ایسا ہی ہورہاہے ۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں بچا ہے جہاں رشوت کا چلن نہ ہو ۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ استاد قوم کا محسن اور رہبر ہوتا ہے ۔ اب انہی نیک اور پارسا قرار دئے جانے والے لوگوں سے رشوت لی جاتی ہے ۔ اس کا اثر پوری نسل پر پڑنا یقینی ہے ۔ سرکار ی اسکولوں میں اس وجہ سے درس وتدریس کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے کہ اساتذہ اسکولوں کے بجائے ٹیوشن سنٹروں پر پڑھانے کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ انہیں معلوم ہے کہ ماہانہ تنخواہ یوں بھی ملے گی ۔ اضافی رقم حاصل کرنے کے لئے اساتذہ ٹیوشن سنٹروں میں کام کرتے ہیں ۔ اساتذہ کی انہی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاکر ان کا استحصال کرتے ہیں ۔ اب یہ مایوس کن بات سامنے آئی ہے کہ مختلف حیلے بہانوں سے ان سے بڑے پیمانے پر رشوت لی جارہی ہے ۔ اساتذہ سے رشوت طلب کی جائے تو رشوت کے خلاف آواز کہاں سے اٹھے گی ۔ اس پر گور کرنے کی ضرورت ہے ۔ رشوت میں ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی کی ضرورت ہے ۔
